زینت عنواں ہے مضموں عالم توحید کا
زینت عنواں ہے مضموں عالم توحید کا
مطلع دیواں نہ کیوں مطلع بنے خورشید کا
یہ سواد نامہ ہے یا سرمۂ تسخیر ہے
ہے بیاض صفحہ یا ہے نور صبح عید کا
دیر میں ہے وہ نہ ہے کعبہ میں اور ہے سب کہیں
طالب نظارہ کو گر ہو سلیقہ دید کا
ہو جو اس کے نام پر آغاز پورا ہو وہ کام
ہے برآرندہ وہی ہر شخص کی امید کا
جو ملا اس سے اسے کہتا ہے عالم مر گیا
نام مردہ رکھ دیا ہے زندۂ جاوید کا
لن ترانی ہی رہی اس شوخ کو عشاق سے
حوصلہ پیدا نہ کس کس کو ہوا گو دید کا
تازہ مضموں سحرؔ اپنی طبع موزوں سے نکال
ہو نہ تو طرز سخن میں آشنا تقلید کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |