ساتھ سائے کی طرح وحشت میں عریانی ہوئی

ساتھ سائے کی طرح وحشت میں عریانی ہوئی
by ریاض خیرآبادی
317899ساتھ سائے کی طرح وحشت میں عریانی ہوئیریاض خیرآبادی

ساتھ سائے کی طرح وحشت میں عریانی ہوئی
مجھ سے دیوانے کے پیچھے یہ بھی دیوانی ہوئی

صدقے ان کی زلف کے میری پریشانی ہوئی
میں تو دیوانہ تھا یہ بھی آج دیوانی ہوئی

ان کے آنچل میں ادا بن کر قیامت چھپ چکی
وہ مری جانی ہوئی وہ میری پہچانی ہوئی

کس کے جلوے نے نگاہ شوق پر ڈالا اثر
طور کے دامن میں اچھی برق جولانی ہوئی

اب جو کھل کھیلیں یہ جوبن کوئی اس کو کیا کرے
پردے پردے میں بہت ان کی نگہبانی ہوئی

مانتے ہیں وہ مجھے یہ غیر کو تسلیم ہے
مان لیتے ہیں مری یہ بات ہے مانی ہوئی

غیر ہی کے ہو رہیں اب کیا رفو کرتے ہیں وہ
چاک دامانی سے ان کی چاک دامانی ہوئی

قحط تھا کتنے مزے کا حسن ارزاں بک گیا
اس گرانی میں مزے آئے وہ ارزانی ہوئی

زلف و رخ نے مارا تارا دیدہ و دل کیا کہیں
کس کو حیرانی ہوئی کس کو پریشانی ہوئی

زمزمی میں جام مے میں گر گیا پانی سوا
تھی مری قسمت میں جیسی آج سب پانی ہوئی

وعدہ دشمن سے نہ تھا تو حشر میں شرمائے کیوں
اس طرح وہ چپ ہیں گویا بات ہے مانی ہوئی

دیکھ کر سبزہ مری تربت کا بدلی وضع جور
آسمانی آپ کی پوشاک کیوں دھانی ہوئی

ڈھیر ہیں کتنے یہاں بام حسیناں سے بلند
جنس دل اٹھتی نہیں اتنی فراوانی ہوئی

پاک صاف ایسی ہے جس نے پی فرشتہ بن گیا
زاہدو یہ حور کے دامن میں ہے چھانی ہوئی

بند ٹوٹے مسکی محرم رنگ اڑا جوبن لٹا
غیر کے گھر جا کے ان کی خوب مہمانی ہوئی

آئیں جائیں گے عدو ہم توڑ کر بیٹھیں گے پاؤں
آپ نے درباں بنایا ہم سے دربانی ہوئی

شکل کیا کھنچتی مری میں گرد باد دشت تھا
گرد تصویر جنوں سے صنعت مانی ہوئی

پیتے ہی دنیا کے جھگڑوں سے ہوئے بے فکر ہم
کس قدر دشواریاں تھیں کتنی آسانی ہوئی

دامن گلچیں میں بھی کچھ پھول برسائے ریاضؔ
کہیے کچھ اس کی زمیں میں بھی گل افشانی ہوئی


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.