ساتھ سائے کی طرح وحشت میں عریانی ہوئی

ساتھ سائے کی طرح وحشت میں عریانی ہوئی
by ریاض خیرآبادی

ساتھ سائے کی طرح وحشت میں عریانی ہوئی
مجھ سے دیوانے کے پیچھے یہ بھی دیوانی ہوئی

صدقے ان کی زلف کے میری پریشانی ہوئی
میں تو دیوانہ تھا یہ بھی آج دیوانی ہوئی

ان کے آنچل میں ادا بن کر قیامت چھپ چکی
وہ مری جانی ہوئی وہ میری پہچانی ہوئی

کس کے جلوے نے نگاہ شوق پر ڈالا اثر
طور کے دامن میں اچھی برق جولانی ہوئی

اب جو کھل کھیلیں یہ جوبن کوئی اس کو کیا کرے
پردے پردے میں بہت ان کی نگہبانی ہوئی

مانتے ہیں وہ مجھے یہ غیر کو تسلیم ہے
مان لیتے ہیں مری یہ بات ہے مانی ہوئی

غیر ہی کے ہو رہیں اب کیا رفو کرتے ہیں وہ
چاک دامانی سے ان کی چاک دامانی ہوئی

قحط تھا کتنے مزے کا حسن ارزاں بک گیا
اس گرانی میں مزے آئے وہ ارزانی ہوئی

زلف و رخ نے مارا تارا دیدہ و دل کیا کہیں
کس کو حیرانی ہوئی کس کو پریشانی ہوئی

زمزمی میں جام مے میں گر گیا پانی سوا
تھی مری قسمت میں جیسی آج سب پانی ہوئی

وعدہ دشمن سے نہ تھا تو حشر میں شرمائے کیوں
اس طرح وہ چپ ہیں گویا بات ہے مانی ہوئی

دیکھ کر سبزہ مری تربت کا بدلی وضع جور
آسمانی آپ کی پوشاک کیوں دھانی ہوئی

ڈھیر ہیں کتنے یہاں بام حسیناں سے بلند
جنس دل اٹھتی نہیں اتنی فراوانی ہوئی

پاک صاف ایسی ہے جس نے پی فرشتہ بن گیا
زاہدو یہ حور کے دامن میں ہے چھانی ہوئی

بند ٹوٹے مسکی محرم رنگ اڑا جوبن لٹا
غیر کے گھر جا کے ان کی خوب مہمانی ہوئی

آئیں جائیں گے عدو ہم توڑ کر بیٹھیں گے پاؤں
آپ نے درباں بنایا ہم سے دربانی ہوئی

شکل کیا کھنچتی مری میں گرد باد دشت تھا
گرد تصویر جنوں سے صنعت مانی ہوئی

پیتے ہی دنیا کے جھگڑوں سے ہوئے بے فکر ہم
کس قدر دشواریاں تھیں کتنی آسانی ہوئی

دامن گلچیں میں بھی کچھ پھول برسائے ریاضؔ
کہیے کچھ اس کی زمیں میں بھی گل افشانی ہوئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse