ساس اور بہو
لو آج صبح ہی سے انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔
’’اے بہن! کیا پوچھتی ہو کہ تمہاری ساس کیوں خفا ہو رہی ہیں۔ ان کی عادت ہی یہ ہے۔ ہر آئے گئے سب کے سامنے میرا رونا لے کر بیٹھ جاتی ہیں۔ ساری دنیا کے عیب مجھ میں ہیں۔ صورت میری بری، پھوہڑ میں، بچوں کو رکھنا میں نہیں جانتی، اپنے بچوں سے مجھے دشمنی، میاں کی میں بیری، غرضیکہ کوئی برائی نہیں جو مجھ میں نہیں اور کوئی خوبی نہیں جو ان میں نہیں۔ اگر میں کھانا پکاؤں تو زبان پر رکھ کر فوراً تھوک دیں گی۔ اور وہ نام رکھیں گی کہ خدا کی پناہ کہ دوسرا بھی نہ کھا سکے۔ شروع شروع میں تومجھے کھانا پکانے میں کافی دلچسپی تھی۔ تم جانتی ہو کہ اپنے گھر پر بھی اکثر پکا لیتی تھی اور میری اماں کو اتنا اچھا کھانا پکانا آتا ہے کہ اپنے رشتہ داروں میں ہر جگہ مشہور ہیں۔ یہاں تو جو پکایا اس میں برائی نکلی کہ نمک تو دیکھو زہر، مزا ایسا کہ مٹی کھا لو۔ ایک دن خود ہی بڑے پکائے اتنے برے تھے کہ ہمارے سسر نے کہا کہ ایسے واہیات بڑے کس نے بنائے ہیں۔ خوب بڑبڑائیں کہ تم کو تو بس بہو کے ہاتھ کی چیزیں اچھی معلوم ہوتی ہیں۔ ساری عمر یہی تو پکا پکا کر کھلاتی رہی ہے۔ اب میں کیا بولتی۔ خوب ہنسے کہ تمہارا صبر پڑا۔ میں نے سوچا کہ کام کرو اور باتیں بھی سنو تو اس سے بہتر نہ ہی کرو۔ کھانے پکانے ہی پر کیا ہے۔
سینے پرونے میں جو کبھی کبھار ایک آدھ چیز درزی سے سلوا لوں تو بس پھر سنو۔ مہینوں ہر آئے گئے کے سامنے ہوتا ہے کہ ہماری بہوصاحب تو میم صاحب ہیں وہ تو درزی سے سلواتی ہیں۔ ہر چیز اپنی، بچوں کی، ان کے کرتے، پاجامے خود ہی سی لیتی ہوں لیکن کبھی کبھار کسی نئی قسم کے بلاؤز یا کوٹ کو دل چاہنے لگے تو درزی کو دے دیتی ہوں۔ چھپا کر دیتی ہوں پھر بھی ان کے اتنے مخبر میرے پیچھے لگے رہتے ہیں کہ ہربات کی خبر کر ہی دیتے ہیں۔ جب میں نئی نئی آئی تھی تو ان کا ایک چکن کا کرتہ میں نے سی دیا تھا۔ ہر ایک کو دکھایا گیا اور برائی کی گئی جو دیکھے چپ ہو جائے۔ اچھے خاصے کرتے کی کوئی کیسے برائی کر دے۔ جب کسی نے برائی نہ کی تو اس کو سارا ادھیڑ ڈالا اور پھر کسی اور سے سلویا۔ دل تو میرا بھی چاہا کہ اب سب کو دکھاؤں لیکن میں یہ کسے کر سکتی تھی۔ وہ بڑا ہونے اور ساس بننے کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ہر وقت پڑھا لکھا ہونے کا طعنہ ہے۔ کوئی کتاب میرے ہاتھ میں دیکھیں جو جل جاتی ہیں۔ کسی کو خط لکھتا دیکھ لیں تو سمجھتی ہیں کہ انہیں کی برائی لکھ رہی ہوں۔ کوئی بات ہی ان کو میری پسند نہیں اور سب سے بری بات جو لگتی ہے کہ ہم دونوں میاں بیوی کبھی خوش نہ رہیں ۔ کبھی اگر یہ کچھ میرے لئے لے آئیں اور خبر ہو جائے تو جل بھن کر رہ جاتی ہیں اورا ٹھتے بیٹھنے ان کو طعنہ ہے کہ تم تو بیوی کے غلام ہو۔ہر وقت میری برائی ان کے سامنے کرتی ہیں، وہ سنکر ٹال جاتے ہیں۔ کبھی ماں سے بگڑ بھی جاتے ہیں اور کبھی ہنس کر کہہ بھی دیتے ہیں کہ ’’ ہاں بہت بری ہے، اماں میری دوسری کر دو۔‘‘ اس وقت تو ان کو باتیں سناتی ہیں کہ ’’جو تمہارے میں یہ ہمت ہوتی تو یہ سر ہی کیوں چڑھتی؟‘‘ اور دوسروں کے سامنے کہتی پھرتی ہیں کہ میرا لڑکا تو اپنی قسمت کو روتا ہے۔ مجھ سے کہتا ہے کہ میری دوسری کردو۔ وہ تو میں ہی ہوں کہ اپنے بچے پر ان بیوی کے لئے ظلم کر رہی ہوں، کوئی دوسری والی ہوتی تو کبھی کا کر دیتی۔ نہ اس کروٹ چین ہے نہ اس کروٹ۔ بچوں کے اوپر لو۔ بالکل ناس ہو گیا ہے جس بات کو میں ہاں کہوں گی یہ نا۔ جس بات کو منع کروں گی یہ ضرور کر کے دیں گے۔ اب باہر کوئی سودے والا پکارے بچے تو ضرور مانگیں گے۔ مجھے یہ سودے والوں سے مکھیوں کا بھنکتا سودا بچوں کو لے کر دینا پسند نہیں۔ میری ضد میں ضرور لے کر دیں گی۔ پچھلے سال برسات میں بڑے لڑکے کو ملائی کی برف کھا کر وہ زور کا بخار چڑھا۔ دو مہینے لئے بیٹھی رہی۔ اس میں بھی لڑائی کہ بچے کو بھوکا مارے دے رہی ہے۔ انجکشن لگوا لگوا کر چھید کر دیئے۔ روز نئے نئے تعویذ آتے تھے اور ساتھ میں مولوی صاحب جھاڑ پھونک کے واسطے لائے جاتے تھے۔ جب کسی طرح نہیں مانیں تو میں بیمار بچے کو اٹھا کر ہوسپٹل لے گئی کہ کچھ تو آرام ملے۔ وہ تو کہو بے چاری ڈاکٹرنی میری دوست ہے ورنہ کون کسی کی بات سنتا ہے۔ یہ وہاں بھی جا کر چار باتیں ڈاکٹروں، نرسوں کواور دس مجھ کو سنا آتی ہیں۔
بچوں کو وقت پر دودھ دینے کی ہماری ساس ایسی دشمن ہیں کہ کیا بتاؤں۔ وہ کہتی ہیں کہ ماں ہو کر بچوں کی دشمن ہوں، بچے پھڑکتے ہیں اور میں بیٹھی دیکھتی رہتی ہوں اور میرا دل پتھر کا ہے، میں بچوں کو پیدا ہوتے ہی کسی پھل کا عرق یعنی نارنگی یا سیب کا دیتی ہوں جب پہلے بچے کو میں نے دیا تو کھڑی اور بیٹھی پیٹتی تھیں کہ میں ہرگز نہیں دینے دوں گی۔ یہ تو بچے کو نمونیا کر کے مارنا چاہتی ہے۔ ہمارے سسر بے چارے بڑے نیک ہیں، انہوں نے سمجھایا، جب یہ کسی طرح نہیں مانیں تو مجھے میرے میکے چھوڑ آئے۔ چھ مہینے وہاں رہی پھر یہ جا کر لے آئے۔ مہینوں بات نہیں کی۔ رات کو کہتی تھیں کہ بچے کو اپنے پاس سلاؤ۔ میں الگ سلاتی ہوں تو ظلم کرتی ہوں۔ میرے تو تین بچے ہیں۔ سب پہلے دن سے الگ سوتے ہیں کہ کوئی بھوت پلیٹ چمٹ جائے گا۔ بچے کو اٹھا کر اپنے پاس سلاتی تھیں۔ اور تو اور رات کو دیکھو تو دودھ کٹوری سے بتی ڈال کر پلا رہی ہیں۔ جو میں منع کروں تو اٹھواروں کی ٹھن جاتی ہے۔ ہر بچے پر اسی طرح دق کرتی ہیں۔
مجھ کو گندہ، پھوہڑ نہ معلوم کیا کیا کہتی ہیں۔ ذرا ان کی طرف جا کر دیکھو، ہر طرف پیک پڑی ہوئی، مکھیاں بھنکتی ہوئی، اس کا نام صفائی ہے۔ اگالدان پاس رکھا ہے لیکن صحن میں جب تھوکیں گی تو زمین پر۔ پاس بیٹھتے ہوئے گھن آتی ہے لیکن میں جو ہر چیز جگہ پر رکھتی ہوں، چلمن مکھیوں کی وجہ سے ڈالتی ہوں تو گندی ہوں۔ اب سال بھر سے یہ خفگی کہ چولہا الگ کر لیا۔ اب کوئی کسی وقت بھی دونوں باورچی خانے جا کر دیکھ لے۔ میرے ہاں کبھی نہ ترکاری پھیلی ملے گی نہ برتن۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میرے ہاں ایک بھی مکھی نہ ملے گی، ان کے ہاں ہر وقت مکھیوں کی بارات لگی ہے۔ کہتی ہیں کہ میں ہر جگہ میں فنائل ڈال ڈال کر نحوست پھیلاتی ہوں۔ ان کے خیال میں تو سلیقہ کے یہ معنی ہیں کہ نوکروں کو خوب تنگ کرو۔ پیٹ بھر کر کھانے کو نہ دو۔ ہر ایک روٹی اور چاول اور دال کو بیٹھے بیٹھے گنا کرو۔ نوکر بھی تو آدمی ہوتے ہیں۔ دو روز میں گھبرا کر بھاگ جاتے ہیں۔ میں نوکروں کے کپڑے بناتی ہوں، زبردستی نہلوا کر بدلواتی ہوں تو کہتی ہیں کہ میاں کے روپے کادرد نہیں۔ نوکروں کو بادشاہ بنا رکھا ہے اور ایک الزام یہ بھی ہے کہ ان کے نوکر میرے نوکروں کو دیکھ کر خراب ہوئے جاتے ہیں۔ میں گھر کے سب آدمیوں کو بگاڑ دیتی ہوں۔
اور تو اور گھر میں کوئی آ جائے تو خفا ہوتی ہیں کہ سامنے کیوں ہوتی ہو۔ پردہ کیوں نہیں کرتیں۔اب ان کے کئی دوست ہیں، جن سے بے تکلفی ہے، بھابی بھابی کرتے ہوئے آ جاتے ہیں۔ ایک آدھ دفعہ ایسا بھی ہوا کہ یہ گھر پر نہ ہوئے، بس قیامت اٹھاتی کہ میم بن گئی ہے۔ مردوں سے ملتی ہے۔ بے شرم ہے نہ معلوم کیا کیا کہا۔ جو میں نے کہا کہ آپ کی لڑکی بھی تو بے پردہ نکلتی ہے۔ اس کا میاں تو زبردستی نکالتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ وہ تو اتنی نیک ہیں کہ ان کا نکلنے کو دل نہیں چاہتا اور میاں کے ظلم سے باہر نکلتی ہیں۔ میں اتنی خراب ہوں کہ میاں کی مرضی کے خلاف نکلتی ہوں۔ ہر ایک کے سامنے یہی کہتی ہیں کہ اپنی شرم کو غصہ کا گھونٹ پی کر چپ ہو جاتا ہے۔ ہماری نند تو کسی مدرسہ میں بھی نہیں پڑھیں شادی کے بعد میاں نے پڑھوایا، لکھوایا۔ ہر جگہ آتی جاتی ہیں اور ہماری ساس کو بھی اچھی طرح معلوم ہے لیکن چھپا جاتی ہیں۔ پچھلی دفعہ جب آئیں تو میں انے اماں کے سامنے پوچھا کہ سچ بتاؤ کیا زبردستی کی جاتی ہے جب باہر نکلتی ہو یا اپنی مرضی سے۔ وہ بولیں کیوں کیا بات ہے۔ میں تو اپنی مرضی سے نکلتی ہوں اب مجھے کوئی پردے میں رکھنا بھی چاہے تو نہ رہوں۔ تو ہماری ساس سن کر کیا کہتی ہیں کہ میرے لڑکے کو تو مجھ سے چھڑا لیا ہے اس کے دل میں میری نفرت بٹھا دی اب میرے دوسرے بچوں پر بھی صاف کر رہی ہے میرے ہر بچے کے سامنے میری برائی کیا کرو۔ الٹ بھی ان کا پلٹ بھی ان کا ۔ وہی کام میں کروں تو برا ہو جاتا ہے اور ان کی لڑکی کریں تو اچھا ہو جاتا ہے۔
ان کو کبھی میرے سے ہنس کر بات کرتے تو دیکھ ہی نہیں سکتیں۔ انہیں سب سے زیادہ رنج اس بات کا ہے کہ یہ مجھ سے کیوں محبت کرتے ہیں۔ میں کمرے میں آئی اور جو یہ مجھ سے خوش ہو کر بول لئے تو غضب ہو جاتا ہے اور تو اور ہر وقت میری صورت کی برائی ان کے سامنے ہوتی ہے۔ ان کو بھی شرات سوجھتی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ اماں اور تو سب عیب ہیں لیکن شکل تو بہت اچھی ہے۔ کہنے لگتی ہیں، شرم نہیں آتی جورو کی تعریف میرے سامنے کرتا ہے ان کو تو ہنسی آتی رہتی ہے میرا دل جل جاتا ہے۔ میں تو چپکے سے اٹھ کر چلی آتی ہوں۔ ہر وقت میرا اپنا مقابلہ بیٹے کے سامنے کرتی رہتی ہیں۔ بھلا کہاں ماں کہاں بیوی۔ان کا تو اس دن کلیجہ ٹھنڈا ہو جس دن یہ مجھے یا تو ماریں یا گھر سے نکال دیں۔ یا دوسری شادی کر لیں اور بھی جو میری دیورانیاں، جٹھانیاں ہیں وہ الگ الگ شہروں میں ہیں، جب وہ آجاتی ہیں تو تھوڑے دن تو ان کی خاطر ہوتی ہے، پھر ان میں بھی عیب نکلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اور پھر یہ ہوتا ہے کہ میں نے سب کو بلا کر ان کے خلاف ’’مس کوٹ‘‘ بنائی ہے۔ بری تو سب ہی بہوئیں ہیں لیکن سب سے بری میں ہوں اور بد قسمتی سے تھوڑی پڑھی لکھی ہوں تو میم صاحب کا خطاب مل گیا ہے۔ میں تو جب یہ اپنی بڑبڑاہٹ شروع کرتی ہیں تو ادھر جا کر کواڑ بند کر کے کچھ کام کرنے لگتی ہوں کہ نہ سنوں گی نہ برا لگے گا۔ اب صبح سے اس بات پر بڑبڑا رہی ہیں کہ بچوں کے میں نے کل ٹائیفائڈ کے ٹیکے لگوا دیئے۔ ان کو تھوڑا تھوڑا بخار ہے۔ بڑا لڑکا بہت لاڈلا ہے اور جا کر پاس لیٹ گیا۔ اس کے سرپر ہاتھ رکھ کر جو باتیں سنائی شروع کی ہیں، اب دو گھنٹے تو ہو گئے ابھی دیکھو کب تک یہ سلسلہ چلتا ہے۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |