ساقی شراب ہے تو غنیمت ہے اب کی اب
ساقی شراب ہے تو غنیمت ہے اب کی اب
پھر بزم ہوگی جب تو سمجھ لیجو جب کی جب
ساغر کے لب سے پوچھیے اس لب کی لذتیں
کس واسطے کہ خوب سمجھتا ہے لب کی لب
کم فرصتی سے عمر کی اپنی ہزار حیف
جتنی تھیں خواہشیں وہ رہیں دل میں سب کی سب
سن کر وہ کل کی آج نہ ہو کس طرح خفا
اے نا شناس طبع کہی تو نے کب کی کب
پھولا ہوا بدن میں سماتا نہیں نظیرؔ
وہ گل بدن جو پاس رہا اس کے شب کی شب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |