سامنا ہے نگاہ قاتل کا

سامنا ہے نگاہ قاتل کا
by نواب امراوبہادر دلیر

سامنا ہے نگاہ قاتل کا
دیکھنا حوصلہ مرے دل کا

ہائے کہنا ادا سے قاتل کا
ہم کو دکھلاؤ رقص بسمل کا

چلے منہ پھیر کر وہ مقتل سے
حال دیکھا گیا نہ بسمل کا

جوش وحشت میں تیرا دیوانہ
کیوں نہ مشتاق ہو سلاسل کا

کھینچ کر ان کو میرے گھر لایا
اثر آخر کو جذب کامل کا

شیخ خاموش ہو خدا کے لئے
ذکر رندوں میں کیا مسائل کا

کاش وہ چٹکیاں ہی لیں آ کر
مشغلہ کچھ تو ہو دکھے دل کا

بوسہ دے ڈالو حسن کی خیرات
رد نہ کیجے سوال سائل کا

اے صبا کر بھی قیس پر احسان
تو ہی پردہ اٹھا دے محمل کا

شک تھا مٹی کا نہ ہو عاشق کے
عطر کیوں کر وہ سونگھتے گل کا

نزع میں بھی دلیرؔ آئے نہ وہ
رہ گیا دل میں حوصلہ دل کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse