سامنے سے جو وہ نگار گیا
سامنے سے جو وہ نگار گیا
دل پہ تیر نگاہ مار گیا
دیکھو بیتابی دل کی اس در پر
ایک دن میں ہزار بار گیا
منزل عشق تک نہ پہنچا آہ
میں تو چلتے ہی چلتے ہار گیا
تیرے قربان کے تو لائق ہوں
اور کاموں سے گو میں ہار گیا
پاس سے اس کے سب گئے خورسند
ایک افسوسؔ سوگوار گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |