ساڑھے تین آنے

ساڑھے تین آنے (1950)
by سعادت حسن منٹو
315672ساڑھے تین آنے1950سعادت حسن منٹو

”میں نے قتل کیوں کیا۔ ایک انسان کے خون میں اپنے ہاتھ کیوں رنگے، یہ ایک لمبی داستان ہے۔ جب تک میں اس کے تمام عواقب و عواطف سے آپ کو آگاہ نہیں کروں گا، آپ کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔ مگر اس وقت آپ لوگوں کی گفتگو کا موضوع جرم اور سزا ہے۔ انسان اور جیل ہے۔ چونکہ میں جیل میں رہ چکا ہوں، اس لیے میری رائے نادرست نہیں ہوسکتی۔ مجھے منٹو صاحب سے پورا اتفاق ہے کہ جیل، مجرم کی اصلاح نہیں کرسکتی۔ مگر یہ حقیقت اتنی بار دہرائی جا چکی ہے کہ اس پر زور دینے سے آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی محفل میں ہزار بار سنایا ہوا لطیفہ بیان کررہا ہے۔ اور یہ لطیفہ نہیں کہ اس حقیقت کو جانتے پہچانتے ہوئے بھی ہزار ہا جیل خانے موجود ہیں۔ ہتھکڑیاں ہیں اور وہ ننگِ انسانیت بیڑیاں۔ میں قانون کا یہ زور پہن چکا ہوں۔ “

یہ کہہ کر رضوی نے میری طرف دیکھا اور مسکرایا۔ اس کے موٹے موٹے حبشیوں کے سے ہونٹ عجیب انداز میں پھڑکے۔

”اس کی چھوٹی چھوٹی مخمور آنکھیں، جو قاتل کی آنکھیں لگی تھیں چمکیں۔ ہم سب چونک پڑے تھے۔ جب اس نے یکا یک ہماری گفتگو میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ وہ ہمارے قریب کرسی پر بیٹھا کریم ملی ہوئی کوفی پی رہا تھا۔ جب اس نے خود کو متعارف کرایا تو ہمیں وہ تمام واقعات یاد آگئے جو اس کی قتل کی واردات سے وابستہ تھے۔ وعدہ معاف گواہ بن کر اس نے بڑی صفائی سے اپنی اور اپنے دوستوں کی گردن پھانسی کے پھندے سے بچا لی تھی۔ وہ اسی دن رہا ہوکر آیا تھا۔ بڑے شائستہ انداز میں وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

”معاف کیجیے گا منٹو صاحب۔ آپ لوگوں کی گفتگو سے مجھے دلچسپی ہے۔ میں ادیب تو نہیں، لیکن آپ کی گفتگو کا جو موضوع ہے اس پر اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں کچھ نہ کچھ ضرور کہہ سکتا ہوں۔ پھر اس نے کہا۔

”میرا نام صدیق رضوی ہے۔ لنڈا بازار میں جو قتل ہوا تھا، میں اس سے متعلق تھا۔ “

میں نے اس قتل کے متعلق صرف سرسری طور پر پڑھا تھا۔ لیکن جب رضوی نے اپنا تعارف کرایا تو میرے ذہن میں خبروں کی تمام سرخیاں ابھر آئیں۔ ہماری گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ آیا جیل مجرم کی اصلاح کرسکتی ہے۔ میں خود محسوس کررہا تھا۔ ہم ایک باسی روٹی کھا رہے ہیں۔ رضوی نے جب یہ کہا۔

”یہ حقیقت اتنی بار دہرائی جا چکی ہے کہ اس پر زور دینے سے آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے۔ جیسے وہ کسی محفل میں ہزار بار سنایا ہوا لطیفہ بیان کررہا ہے۔

”تو مجھے بڑی تسکین ہوئی۔ میں نے یہ سمجھا جیسے رضوی نے میرے خیالات کی ترجمانی کردی ہے۔ کریم ملی ہوئی کوفی کی پیالی ختم کرکے رضوی نے اپنی چھوٹی چھوٹی مخمور آنکھوں سے مجھے دیکھا اور بڑی سنجیدگی سے کہا۔ منٹو صاحب آدمی جرم کیوں کرتا ہے۔ جرم کیا ہے، سزا کیا ہے۔ میں نے اس کے متعلق بہت غور کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر جرم کے پیچھے ایک ہسٹری ہوتی ہے۔ زندگی کے واقعات کا ایک بہت بڑا ٹکرا ہوتا ہے، بہت اچھا ہوا، ٹیڑھا میڑھا۔ میں نفسیات کا ماہر نہیں۔ لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ انسان سے خود جرم سرزد نہیں ہوتا۔ حالات سے ہوتا ہے! “

نصیر نے کہا۔

”آپ نے بالکل درست کہا ہے۔ “

رضوی نے ایک اور کافی کا آرڈر دیا اور نصیر سے کہا۔

”مجھے معلوم نہیں جناب، لیکن میں نے جو کچھ عرض کیا ہے اپنے مشاہدات کی بنا پر عرض کیا ہے ورنہ یہ موضوع بہت پرانا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وکٹر ہیوگو۔ فرانس کا ایک مشہور ناولسٹ تھا۔ شاید کسی اور ملک کا ہو۔ آپ تو خیر جانتے ہی ہوں گے، جرم اور سزا پر اس نے کافی لکھا ہے۔ مجھے اس کی ایک تصنیف کے چند فقرے یاد ہیں۔ “

یہ کہہ کروہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

”منٹو صاحب، غالباً آپ ہی کا ترجمہ تھا۔ کیا تھا؟ وہ سیڑھی اتار دو جو انسان کوجرائم اور مصائب کی طرف لے جاتی ہے۔ لیکن میں سوچتا کہ وہ سیڑھی کون سی ہے۔ اس کے کتنے زینے ہیں۔ کچھ بھی ہو، یہ سیڑھی ضرور ہے، اس کے زینے بھی ہیں، لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں، بے شمار ہیں، ان کو گننا، ان کا شمار کرنا ہی سب سے بڑی بات ہے

”منٹو صاحب، حکومتیں رائے شماری کرتی ہیں، حکومتیں اعداد و شمار کرتی ہیں، حکومتیں ہر قسم کی شماری کرتی ہیں۔ اس سیڑھی کے زینوں کی شماری کیوں نہیں کرتیں۔ کیا یہ ان کا فرض نہیں۔ میں نے قتل کیا۔ لیکن اس سیڑھی کے کتنے زینے طے کرکے کیا۔ حکومت نے مجھے وعدہ معاف گواہ بنا لیا، اس لیے کہ قتل کا ثبوت اس کے پاس نہیں تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ میں اپنے گناہ کی معافی کس سے مانگوں۔ وہ حالات جنہوں نے مجھے قتل کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اب میرے نزدیک نہیں ہیں، ان میں اور مجھ میں ایک برس کا فاصلہ ہے۔ میں اس فاصلے سے معافی مانگوں یا ان حالات سے جو بہت دور کھڑے میرا منہ چڑا رہے ہیں۔ “

ہم سب رضوی کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے۔ وہ بظاہر تعلیم یافتہ معلوم نہیں ہوتا تھا، لیکن اس کی گفتگو سے ثابت ہوا کہ وہ پڑھا لکھا ہے اور بات کرنے کا سلیقہ جانتا ہے۔ میں نے اس سے کچھ کہا ہوتا، لیکن میں چاہتا تھا کہ وہ باتیں کرتا جائے اور میں سنتا جاؤں۔ اسی لیے میں اس کی گفتگو میں حائل نہ ہوا۔ اس کے لیے نئی کوفی آگئی تھی۔ اسے بنا کر اس نے چند گھونٹ پیے اور کہنا شروع کیا۔

”خدا معلوم میں کیا بکواس کرتا رہا ہوں، لیکن میرے ذہن میں ہر وقت ایک آدمی کا خیال رہا ہے۔ اس آدمی کا، اس بھنگی کا جو ہمارے ساتھ جیل میں تھا۔ اس کو ساڑھے تین آنے چوری کرنے پر ایک برس کی سزا ہوئی تھی۔ “

نصیر نے حیرت سے پوچھا۔ صرف ساڑھے تین آنے چوری کرنے پر؟ ”

رضوی نے یخ آلود جواب دیا۔

”جی ہاں۔ صرف ساڑھے تین آنے کی چوری پر۔ اور جو اس کو نصیب نہ ہوئے، کیونکہ وہ پکڑا گیا۔ یہ رقم خزانے میں محفوظ ہے اور پھگو بھنگی غیر محفوظ ہے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے وہ پھر پکڑا جائے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اس کا پیٹ پھر اسے مجبور کرے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس سے گُو مُوت صاف کرانے والے اس کی تنخواہ نہ دے سکیں، کیونکہ ہو سکتا ہے اس کو تنخواہ دینے والوں کو اپنی تنخواہ نہ ملے۔ یہ ہو سکتا ہے کا سلسلہ منٹو صاحب عجیب وغریب ہے۔ سچ پوچھئے تو دنیا میں سب کچھ ہو سکتا ہے۔ رضوی سے قتل بھی ہوسکتا ہے۔ “

یہ کہہ کروہ تھوڑے عرصے کے لیے خاموش ہو گیا۔ نصیر نے اس سے کہا۔

”آپ پھگو بھنگی کی بات کررہے تھے۔ ؟ “

رضوی نے اپنی چھدری مونچھوں پرسے کوفی رومال کے ساتھ پونچھی۔

”جی ہاں۔ پھگو بھنگی چور ہونے کے باوجود، یعنی وہ قانون کی نظروں میں چور تھا۔ لیکن ہماری نظروں میں پورا ایماندار۔ خدا کی قسم میں نے آج تک اس جیسا ایماندار آدمی نہیں دیکھا، ساڑھے تین آنے اس نے ضرور چرائے تھے، اس نے صاف صاف عدالت میں کہہ دیا تھا کہ یہ چوری میں نے ضرور کی ہے، میں اپنے حق میں کوئی گواہی پیش نہیں کرنا چاہتا۔ میں دو دن کا بھوکا تھا، مجبوراً مجھے کریم درزی کی جیب میں ہاتھ ڈالنا پڑا۔ اس سے مجھے پانچ روپے لینے تھے۔ دو مہینوں کی تنخواہ۔ حضور اس کا بھی کچھ قصور نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس کے کئی گاہکوں نے اس کی سلائی کے پیسے مارے ہوئے تھے۔ حضور، میں پہلے بھی چوریاں کر چکا ہوں۔ ایک دفعہ میں نے دس روپے ایک میم صاحب کے بٹوے سے نکال لیے تھے۔ مجھے ایک مہینے کی سزا ہوئی تھی۔ پھر میں نے ڈپٹی صاحب کے گھر سے چاندی کا ایک کھلونا چرایا تھا اس لیے کہ میرے بچے کو نمونیا تھا اور ڈاکٹر بہت فیس مانگتا تھا۔ حضور میں آپ سے جھوٹ نہیں کہتا۔ میں چور نہیں ہوں۔ کچھ حالات ہی ایسے تھے کہ مجھے چوریاں کرنی پڑیں۔ اور حالات ہی ایسے تھے کہ میں پکڑا گیا۔ مجھ سے بڑے بڑے چور موجود ہیں لیکن وہ ابھی تک پکڑے نہیں گئے۔ حضور، اب میرا بچہ بھی نہیں ہے، بیوی بھی نہیں ہے۔ لیکن حضور افسوس ہے کہ میرا پیٹ ہے، یہ مر جائے تو سارا جھنجھٹ ہی ختم ہو جائے، حضور مجھے معاف کردو۔ لیکن حضور نے اس کو معاف نہ کیا اور عادی چور سمجھ کر اس کو ایک برس قید بامشقت کی سزا دے دی۔ “

رضوی بڑے بے تکلف انداز میں بول رہا تھا۔ اس میں کوئی تصنع، کوئی بناوٹ نہیں تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ الفاظ خود بخود اس کی زبان پر آتے اور بہتے چلتے جارہے ہیں۔ میں بالکل خاموش تھا۔ سگریٹ پہ سگریٹ پی رہا تھا اور اس کی باتیں سن رہا تھا۔ نصیر پھر اس سے مخاطب ہوا۔

”آپ پھگو کی ایمانداری کی بات کررہے تھے؟ “

”جی ہاں۔ “

رضوی نے جیب سے بیٹری نکال کر سلگائی۔

”میں نہیں جانتا قانون کی نگاہوں میں ایمانداری کیا چیز ہے، لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ میں نے بڑی ایمانداری سے قتل کیا تھا۔ اور میرا خیال ہے کہ پھگو بھنگی نے بھی بڑی ایمانداری سے ساڑھے تین آنے چرائے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ ایماندار کو صرف اچھی باتوں سے کیوں منسوب کرتے ہیں، اور سچ پوچھیے تو میں اب یہ سوچنے لگا ہوں کہ اچھائی اور برائی ہے کیا۔ ایک چیز آپ کے لیے اچھی ہو سکتی ہے، میرے لیے بری۔ ایک سوسائٹی میں ایک چیز اچھی سمجھی جاتی ہے، دوسری میں بری۔ ہمارے مسلمانوں میں بغلوں کے بال بڑھانا گناہ سمجھا جاتا ہے، لیکن سکھ اس سے بے نیاز ہیں۔ اگریہ بال بڑھانا واقعی گناہ ہے تو خدا ان کو سزا کیوں نہیں دیتا اگر کوئی خدا ہے تو میری اس سے درخواست ہے کہ خدا کے لیے تم یہ انسانوں کے قوانین توڑ دو، ان کی بنائی ہوئی جیلیں ڈھا دو۔ اور آسمانوں پر اپنی جیلیں خود بناؤ۔ خود اپنی عدالت میں ان کو سزا دو، کیونکہ اور کچھ نہیں تو کم از کم خدا تو ہو۔ “

رضوی کی اس تقریر نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس کی خامکاری ہی اصل میں تاثر کا باعث بھی۔ وہ باتیں کرتا تھا تو یوں لگتا ہے جیسے وہ ہم سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے دل ہی دل میں گفتگو کررہا ہے۔ اس کی بیڑی بجھ گئی تھی، غالباً اس میں تمباکو کی گانٹھ اٹکی ہوئی تھی۔ اس لیے کہ اس نے پانچ چھ مرتبہ اس کو سلگانے کی کوشش کی۔ جب نہ سلگی تو پھینک دی اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔

”منٹو صاحب، پھگو مجھے اپنی تمام زندگی یاد رہے گا۔ آپ کو بتاؤں گا تو آپ ضرورکہیں گے کہ جذباتیت ہے، لیکن خدا کی قسم جذباتیت کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ وہ میرا دوست نہیں تھا۔ نہیں وہ میرا دوست تھا کیونکہ اس نے ہر بار خود کو ایسا ہی ثابت کیا۔ “

رضوی نے جیب میں سے دوسری بیڑی نکالی مگر وہ ٹوٹی ہوئی تھی۔ میں نے اسے سگریٹ پیش کیا تو اس نے قبول کرلیا۔

”شکریہ۔ منٹو صاحب، معاف کیجیے گا، میں نے اتنی بکواس کی ہے حالانکہ مجھے نہیں کرنی چاہیے تھی اس لیے کہ ماشاء اللہ آپ۔ “

میں نے اس کی بات کاٹی۔

”رضوی صاحب، میں اس وقت منٹو نہیں ہوں صرف سعادت حسن ہوں۔ آپ اپنی گفتگو جاری رکھئے۔ میں بڑی دلچسپی سے سن رہا ہوں۔ “

رضوی مسکرایا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی مخمور آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ آپ کی بڑی نوازش ہے۔ پھر وہ نصیرسے مخاطب ہوا۔

”میں کیا کہہ رہا تھا۔ “

میں نے اس سے کہا۔

”آپ پھگو کی ایمانداری کے متعلق کچھ کہنا چاہتے تھے۔ “

”جی ہاں“

یہ کہہ کراس نے میرا پیش کیا ہوا سگریٹ سلگایا۔

”منٹو صاحب، قانون کی نظروں میں وہ عادی چور تھا۔ بیڑیوں کے لیے ایک دفعہ اس نے آٹھ آنے چرائے تھے۔ بڑی مشکلوں سے، دیوار پھاند کر جب اس نے بھاگنے کی کوشش کی تھی تو اس کے ٹخنے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ قریب قریب ایک برس تک وہ اس کا علاج کراتا رہا تھا، مگر جب میرا ہم الزام دوست جرجی بیس بیڑیاں اس کی معرفت بھیجتا تو وہ سب کی سب پولیس کی نظریں بچا کر میرے حوالے کردیتا۔ وعدہ معاف گوا ہوں پر بہت کڑی نگرانی ہوتی ہے، لیکن جرجی نے پھگو کو اپنا دوست اور ہمراز بنا لیا تھا۔ وہ بھنگی تھا، لیکن اس کی فطرت بہت خوشبودار تھا۔ شروع شروع میں جب وہ برجی کی بیڑیاں لے کر میری پاس آیا تو میں نے سوچا، اس حرامزادے چور نے ضرور ان میں سے کچھ غائب کرلی ہوں گی، مگر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ قطعی طور پر ایماندار تھا۔ بیڑی کے لیے اس نے آٹھ آنے چراتے ہوئے اپنے ٹخنے کی ہڈی تڑوا لی تھی مگر یہاں جیل میں اس کو تمباکو کہیں سے بھی نہیں مل سکتا تھا، وہ جرجی کی دی ہوئی بیڑیاں تمام و کمال میرے حوالے کردیتا تھا، جیسے وہ امانت ہوں۔ پھر وہ کچھ دیر ہچکچانے کے بعد مجھ سے کہتا، بابو جی، ایک بیڑی تو دیجیے اور میں اس کو صرف ایک بیڑی دیتا۔ انسان بھی کتنا کمینہ ہے! “

رضوی نے کچھ اس انداز سے اپنا سر جھٹکا جیسے وہ اپنے آپ سے متنفر ہے۔

”جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں مجھ پر بہت کڑی پابندیاں عائد تھیں۔ وعدہ معاف گواہوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جرجی البتہ میرے مقابلے میں بہت آزاد تھا۔ اس کو رشوت دے دلا کر بہت آسانیاں مہیا تھیں۔ کپڑے مل جاتے تھے۔ صابن مل جاتا تھا۔ بیڑیاں مل جاتی تھیں۔ جیل کے اندر رشوت دینے کے لیے روپے بھی مل جاتے تھے۔ پھگو بھنگی کی سزا ختم ہونے میں صرف چند دن باقی رہ گئے تھے، جب اس نے آخری بار جرجی کی دی ہوئی بیڑیاں مجھے لا کر دیں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ جیل سے نکلنے پر خوش نہیں تھا۔ میں نے جب اس کو مبارکباد دی تو اس نے کہا۔

”بابو جی، میں پھر یہاں آجاؤں گا۔ بھوکے انسان کو چوری کرنی ہی پڑتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک بھوکے انسان کو کھانا کھاناہی پڑتا ہے۔ بابو جی آپ بڑے اچھے ہیں، مجھے اتنی بیڑیاں دیتے رہے۔ خدا کرے آپ کے سارے دوست بری ہو جائیں۔ جرجی بابو آپ کو بہت چاہتے ہیں۔ “

نصیر نے یہ سن کر غالباً اپنے آپ سے کہا۔

”اور اس کو صرف ساڑھے تین آنے چرانے کے جرم میں سزا ملی تھی۔ “

رضوی نے گرم کافی کا ایک گھونٹ پی کر ٹھنڈے انداز میں کہا۔

”جی ہاں صرف ساڑھے تین آنے چرانے کے جرم میں۔ اور وہ بھی خزانے میں جمع ہیں۔ خدا معلوم ان سے کس پیٹ کی آگ بجھے گی! “

رضوی نے کافی کا ایک اور گھونٹ پیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔

”ہاں منٹو صاحب، اس کی رہائی میں صرف ایک دن رہ گیا تھا۔ مجھے دس روپوں کی اشد ضرورت تھی۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ مجھے یہ روپے ایک سلسلے میں سنتری کو رشوت کے طور پر دینے تھے۔ میں نے بڑی مشکلوں سے کاغذ پنسل مہیا کرکے جرجی کو ایک خط لکھا تھا اور پھگو کے ذریعہ سے اس تک بھجوایا تھا کہ وہ مجھے کسی نہ کسی طرح دس روپے بھیج دے۔ پھگو ان پڑھ تھا۔ شام کو وہ مجھ سے ملا۔ جرجی کا رقعہ اس نے مجھے دیا۔ اس میں دس روپے کا سرخ پاکستانی نوٹ قید تھا۔ میں نے رقعہ پڑھا۔ یہ لکھا تھا۔ رضوی پیارے دس روپے بھیج تو رہا ہوں، مگر ایک عادی چور کے ہاتھ، خدا کرے تمہیں مل جائیں۔ کیونکہ یہ کل ہی جیل سے رہا ہو کر جا رہا ہے ۔ “

میں نے یہ تحریر پڑھی تو پھگو بھنگی کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ اس کو ساڑھے تین آنے چرانے کے جرم میں ایک برس کی سزا ہوئی تھی۔ میں سوچنے لگا اگر اس نے دس روپے چرائے ہوتے تو ساڑھے تین آنے فی برس کے حساب سے اس کو کیا سزا ملتی؟ ”

یہ کہہ کررضوی نے کافی کا آخری گھونٹ پیا اور رخصت مانگے بغیر کافی ہاؤس سے باہر چلا گیا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.