سب سے تم اچھے ہو تم سے مری قسمت اچھی
سب سے تم اچھے ہو تم سے مری قسمت اچھی
یہی کم بخت دکھا دیتی ہے صورت اچھی
حسن معشوق سے بھی حسن سخن ہے کم یاب
ایک ہوتی ہے ہزاروں میں طبیعت اچھی
میری تصویر بھی دیکھی تو کہا شرما کر
یہ برا شخص ہے اس کی نہیں نیت اچھی
کس صفائی سے کیا وصل کا تو نے انکار
اس محل پر تو زباں میں تری لکنت اچھی
جو ہو آغاز میں بہتر وہ خوشی ہے بد تر
جس کا انجام ہو اچھا وہ مصیبت اچھی
تم بتاؤ تو سہی مہر و محبت کے گواہ
ایسے دعوے میں تو جھوٹی ہی شہادت اچھی
زور و زر سے بھی کہیں داغؔ حسیں ملتے ہیں
اپنے نزدیک تو ہے سب سے اطاعت اچھی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |