سب سے چھپتے ہیں چھپیں، مجھ سے تو پردا نہ کریں
سب سے چھپتے ہیں چھپیں، مجھ سے تو پردا نہ کریں
سیرِ گلشن وہ کریں شوق سے ، تنہا نہ کریں
اب تو آتا ہے یہی جی میں کہ اے محو جفا
کچھ بھی ہو جائے مگر تری تمنّا نہ کریں
میں ہوں مجبور تو مجبور کی پرسش ہے ضرور
وہ مسیحا ہیں تو بیمار کو اچھا نہ کریں
دردِ دل اور نہ بڑھ جائے تسلی سے کہیں
آپ اس کام کا زنہار ارادہ نہ کریں
شکوۂ جور تقاضائے کرم عرض وفا
تم جو مل جاؤ کہیں ہم کو تو کیا کیا نہ کریں
نورِ جاں کے لئے کیوں ہو کسی کامل کی تلاش
ہم تری صورت زیبا کا تماشا نہ کریں
حال کھل جائے گا بیتابیِ دل کا حسرت
بار بار آپ انہیں شوق سے دیکھا نہ کریں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |