سب شکایت ہے زندگانی کی
سب شکایت ہے زندگانی کی
جان نے دشمنیٔ جانی کی
ہم سبک دوش ہی جہاں سے گئے
نہ کسی طبع نے گرانی کی
ہاں سبک سار کر دے اے قاتل
جسم پر سر نے سرگرانی کی
روح تن پر وبال دوش ہوئی
ہے یہ افراط ناتوانی کی
عشق برباد کر گیا آخر
تھی خبر کس کو ناگہانی کی
ایسی اک تیغ آب دار لگا
پھر نہ مانگوں جو بوند پانی کی
دل ہوا فرط داغ سے اک باغ
عشق نے خوب باغبانی کی
اک ذرا کھول چشم عبرت میں
سیر کر اس جہان فانی کی
سینہ پر داغ حسرت و حرماں
اک نشانی ہے یہ جوانی کی
جو ہیں آسودگان عیش انہیں
کیا خبر اس غم نہانی کی
کیوں نہ ہو اشتیاق نظم ضمیرؔ
دھوم ہے اس کی خوش بیانی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |