سب ٹھاٹھ یہ اک بوند سے قدرت کی بنا ہے

سب ٹھاٹھ یہ اک بوند سے قدرت کی بنا ہے
by نظیر اکبر آبادی

سب ٹھاٹھ یہ اک بوند سے قدرت کی بنا ہے
یاں اور کسی کی نہ منی ہے نہ منا ہے

بالفرض اگر ہم ہوے حوا کے شکم سے
آدم کے تئیں دیکھیے وہ کس کا جنا ہے

یاں لوگ دولہن دولہا کے قصے میں پھنسے ہیں
واں اور بنت ہے نہ بنی ہے نہ بنا ہے

حکمت کا الٹ پھیر نہیں جن کی نظر میں
وہ کہتے ہیں غافل یہ بقا ہے یہ فنا ہے

لے عرش سے تا فرش جو روشن ہے طلسمات
یہ نور سب اس نور کی چھلنی سے چھنا ہے

ہم کچے سے کچا اسے سمجھے ہیں وگرنہ
اس دیگ کے چاول میں کنی ہے نہ کنا ہے

ملنا بھی غرض کا ہے لڑائی بھی غرض کی
نہیں اور کسی سے کوئی روٹھا نہ منا ہے

حاجت نہ بر آئی تو وہیں کرنے لگے ہجو
اور ہو گیا مطلب تو ہیں وصف و ثنا ہے

یابس کہیں مرطوب کہیں گرم کہیں سرد
مصری میں کہیں زہر ہلاہل میں سنا ہے

ایک اس کی دوا سمجھی نہیں جاتی نظیرؔ آہ
کچھ زور ہی معجون کا نسخہ یہ بنا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse