سب کو ہے منظور اس رخسار گل گوں کی طرف

سب کو ہے منظور اس رخسار گل گوں کی طرف
by میر حسن دہلوی

سب کو ہے منظور اس رخسار گل گوں کی طرف
دیکھتا ہے کون میری چشم پر خوں کی طرف

ساتھ ناقہ کے خدا جانے کدھر رم کر گئی
گرد محمل بھی نہ پہنچی آہ مجنوں کی طرف

جان و دل میں بے طرح بگڑی ہے تیرے عشق میں
کیجیے دل کی طرف یا جان محزوں کی طرف

زلف و رخ ہے روز و شب کیا دیکھتے رہتے ہو تم
منصفی سے ٹک تو دیکھو اپنے مفتوں کی طرف

خضر تک کیجو مدد تو بھی کہ تا بھولے نہ راہ
ناقۂ لیلیٰ چلا ہے آج مجنوں کی طرف

گرچہ ہیں تیری ہی گردش سے نگہ کی ہم خراب
پر اشارہ اس کا کر دیتے ہیں گردوں کی طرف

کیونکہ آوے چین تیرے وحشیوں کو بعد مرگ
خاک ہو کر جب تلک جاویں نہ ہاموں کی طرف

نام میں بھی ہے عیاں عاشق کی آشفتہ سری
دیکھتے تو ہو گے اکثر بید مجنوں کی طرف

بسکہ اس کی زلف کے آشفتہ ہیں ہم اے حسنؔ
شعر میں بھی دھیان ہے پیچیدہ مضموں کی طرف

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse