ستم فراق کے صدموں نے اے نگار کیا
ستم فراق کے صدموں نے اے نگار کیا
جگر کو خون کیا دل کو داغدار کیا
یہ شعبدے ہیں ترے انقلاب دہر نہیں
ارے فقیر اسے تو نے شہریار کیا
کبھی بہشت کے قابل نہ تھے مرے اعمال
کریم تیرے کرم نے امیدوار کیا
ہزار حیف کہ مرقد پہ بھی ہوا اندھیر
ہوا نے کشتہ چراغ سر مزار کیا
ستم شعار ستم کا خراب ہے انجام
برا کیا ستم اے چرخ اختیار کیا
عدم میں قافلے والے پہنچ گئے روشنؔ
یہ گھر اجاڑ کے آباد وہ دیار کیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |