ستم میں بھی تو پہلو ان کی زینت کہ نکلتے ہیں
ستم میں بھی تو پہلو ان کی زینت کہ نکلتے ہیں
ہمارے خوں شدہ دل کو حسیں تلووں سے ملتے ہیں
شگاف سینہ سوراخ جگر چاک دل عاشق
محبت کی گلی سے سیکڑوں رستے نکلتے ہے
تمہاری مانگ کے عاشق ہیں شیخ و برہمن دونوں
یہ وہ رستہ ہے جس پر دوست دشمن ساتھ چلتے ہیں
کھٹک آج آنسوؤں کی دے رہی ہے یہ خبر مجھ کو
چبھے تھے دل میں جو کانٹے وہ آنکھوں سے نکلتے ہیں
میں اس الفت کے صدقہ ہوں میں اس نفرت کے قرباں ہوں
جگہ ہے رازؔ کی دل میں مگر صورت سے جلتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |