ستم ہے مبتلائے عشق ہو جانا جواں ہو کر
ستم ہے مبتلائے عشق ہو جانا جواں ہو کر
ہمارے باغ ہستی میں بہار آئی خزاں ہو کر
جوانی کی دعائیں مانگی جاتی تھیں لڑکپن میں
لڑکپن کے مزے اب یاد آتے ہیں جواں ہو کر
خدا رکھے دل مایوس میں امید باقی ہے
یہی گل ہے جو بو دیتا ہے پامال خزاں ہو کر
مجھے شبنم بنا رکھا ہے ان خورشید رویوں نے
رلاتے ہیں نہاں ہو کر مٹاتے ہیں عیاں ہو کر
ہمیں وہ تھے کہ ہوتی تھی بسر پھولوں کے غنچے میں
ہمیں اب اے فلک تنکے چنیں بے آشیاں ہو کر
در جاناں کے آگے کب تحیر بڑھنے دیتا ہے
جو آتا ہے وہ رہ جاتا ہے سنگ آستاں ہو کر
نہال شمع میں کیا خوشنما اک پھول آیا تھا
ستم ڈھایا نسیم صبح نے باد خزاں ہو کر
تقاضا سن کا بھی اللہ کیا شے ہے کہ یوسف سے
زلیخا ناز کرتی ہے نئے سر سے جواں ہو کر
جلیلؔ آخر جو کی ہے شاعری کچھ کام بھی نکلے
کسی بت کو مسخر کیجیے معجز بیاں ہو کر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |