ستم ہے وہ پھر بد گماں ہو رہا ہے
ستم ہے وہ پھر بد گماں ہو رہا ہے
پس امتحاں امتحاں ہو رہا ہے
خوشی کیوں نہ ہو قتل ہونے کی مجھ کو
وہ نا مہرباں مہرباں ہو رہا ہے
تصدق تجھی پر زمیں ہو رہی ہے
تجھی پر فدا آسماں ہو رہا ہے
مجھے ہچکیوں نے خبر دی ہے آ کر
مرا ذکر جو کچھ وہاں ہو رہا ہے
چلو سیر کر آئیں جنت کی عاشقؔ
عجب کچھ تماشا وہاں ہو رہا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |