323735ستیسرور جہاں آبادی

اے ستی اے جلوہ گاہ شعلۂ تنویر حسن
پاک دامانی کا نقشہ ہے تری تصویر حسن
یہ تن نازک ترا یہ شعلہ ہائے آتشیں
یہ چتا کی آتش سوزاں یہ جسم نازنیں
صاعقہ ہے برق کا تیرے دل مضطر کی آگ
پھونک دیتی ہے تجھے سوز غم شوہر کی آگ
خاک ہو کر بھی ترے داغ جگر بجھتے نہیں
آہ تیری راکھ کے برسوں شرر بجھتے نہیں
ہند کو ہے ناز تیری ہمت مردانہ پر
تو چراغ کشتہ ہے خاکستر پروانہ پر
آگ میں ہے تو سپند شوق جلنے کے لیے
شمع ماتم ہے شب غم میں پگھلنے کے لیے
گرمی ہنگامۂ محشر تری محفل میں ہے
سرد جو ہوتی نہیں وہ آگ تیرے دل میں ہے
کب گوارا آہ ہے سوز غم شوہر تجھے
ہے ہر اک تار نفس اک شعلۂ مضطر تجھے
اف ری شوہر کی چتا پر شعلہ افروزی تری
جیتے جی سوز محبت میں جگر سوزی تری
جاں گدازی کی ادا یہ شمع محفل میں کہاں
گرمی سوز وفا یہ شمع محفل میں کہاں
وہ چتا کی آتش جاں سوز، وہ دود سیاہ
شوہر مردہ کا سر وہ زانو نازک پہ آہ
آگ کے وہ ہائے شعلے اور وہ مکھڑا چاند سا
لب پہ کم کم شوخی برق تبسم کی ادا
ہلکا پھلکا جسم نازک پر دوپٹہ سرخ سرخ
وصل روحانی کی شادی سے وہ چہرہ سرخ سرخ
عالم دود سیہ وہ زلف عنبر فام میں
دوڑنے والے وہ شعلے حلقہ ہائے دام میں
آتش سوزاں میں بھی وہ آہ شوہر کا خیال
اور وہ دل میں گرمی ہنگامۂ شوق وصال
جل کے سوز اضطراب شوق میں پروانہ وار
خلد میں شوہر سے ہونا اف وہ خوش خوش ہمکنار
ڈال دینا وہ گلے میں ہنس کے بانہیں پیار سے
دل لبھا لینا ادائے شیوۂ گفتار سے
ہلکی ہلکی چاندنی کیفیت گل گشت باغ
وہ لب جو آہ حسن و عشق کے دو شب چراغ
تجھ پہ اے ناز آفریں شوہر پرستی ختم ہے
اک شرار آرزو میں تیری ہستی ختم ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.