سحر جو نکلا میں اپنے گھر سے تو دیکھا اک شوخ حسن والا

سحر جو نکلا میں اپنے گھر سے تو دیکھا اک شوخ حسن والا
by نظیر اکبر آبادی
315932سحر جو نکلا میں اپنے گھر سے تو دیکھا اک شوخ حسن والانظیر اکبر آبادی

سحر جو نکلا میں اپنے گھر سے تو دیکھا اک شوخ حسن والا
جھلک وہ مکھڑے میں اس صنم کے کہ جیسے سورج میں ہو اجالا

وہ زلفیں اس کی سیاہ پر خم کہ ان کے بل اور شکن کو یارو
نہ پہنچے سنبل نہ پہنچے ریحاں نہ پہنچے ناگن نہ پہنچے کالا

ادائیں بانکی عجب طرح کی وہ ترچھی چتون بھی کچھ تماشہ
بھنویں وہ جیسے کھنچی کمانیں پلک سناں کش نگاہ بھالا

وہ آنکھیں مست اور گلابی اس کی کہ ان کو دیکھے تو دیکھتے ہی
مئے محبت کا اس کی دل کو ہو کیا ہی گہرا نشہ دوبالا

لبوں پہ سرخی وہ پان کی کچھ کہ لعل بھی منفعل ہو جس سے
وہ آن ہنسنے کی بھی پھر ایسی کہ جس کا عالم ہے کچھ نرالا

وہ جامہ زیبی وہ دل فریبی وہ سج دھج اس کی وہ قد زیبا
کہ دیکھ جس پر فدا ہوں دل سے وہ جن کو کہتے ہیں سرو بالا

نگہ لڑائی ہے اس نے جس دم جھٹک لیا جھپ تو دل کو میرے
ادا ادا نے ادھر دبوچا پلک پلک نے ادھر اچھالا

جو لے لیا دل کو میرے یارو تو اس نے لی راہ اپنے گھر کی
پڑا تڑپتا میں رہ گیا واں زباں پہ آہ اور لبوں پہ نالہ

بہت یہ میں نے تو چاہا پوچھوں میں نام اس کا ولے وو گل رو
نہ مجھ سے بولا نہ کی اشارت نہ دی تسلی نہ کچھ سنبھالا

پری رخ من شکر لب من و مے تو باز آ بہ پیش چشمم
بیاد سرو تو بے قرارم نہال عشقت شدہ است بالا

فداے وجہک عشی شرقاً و موع نہراً و من فراقک
کثیر حزنا مع الہموم ثقیل ہجرا و کالجبالا

تسا دے ملنے نوں دل ہے بے کل ایہی او گلاں نت آکھدا ہے
سدا لے مینوں دے اپنے گھر وچ نہیں تو اتھے اسا دے نال آ

تمہاری آسا لگی ہے نس دن تمہارے درشن کو ترسیں نیناں
دلارے سندر انوٹھے ابرن ہٹیلے موہن انوکھے لالا

چہن کے من کو جو چھننوں تھی اے یار کائیں لگائی اتنی
بھرایتیں آ کر کھبر لو مہاں کی پلک کٹارا جو تھاں نے گھالا

اگن برت ہے ہیا میں مورے برہ میں تیرے اے من موہنواں
تورے جو نیناں نے موہا مہکو نہ جینوں تنکو بھوا وکھالا

جگت سبہا امت برہمکھ اٹک کہسوا ممن کرن کھا
دوانی کینی تمن سریجن نہ سدھ کی گر پر نہ بدھ کی جھالا

کبھی تو ہنس کر شتاب آ جا نظیرؔ کی بھی طرف ٹک اے جاں
بنا کے سج دھج پھرا کے دامن لگا کے ٹھوکر ہلا کے بالا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.