سرخ چشم اتنی کہیں ہوتی ہے بیداری سے

سرخ چشم اتنی کہیں ہوتی ہے بیداری سے
by نواب محمد یار خاں امیر

سرخ چشم اتنی کہیں ہوتی ہے بیداری سے
لہو اترا ہے تری آنکھوں میں خوں خواری سے

وقت رخصت کے ترے اے مرے جی کے دشمن
تھام تھام آج رکھا دل کو میں کس خواری سے

بس میں آیا جو تمہارے اسے چاہو سو کرو
کیا ستم آدمی سہتا نہیں لاچاری سے

کس نے نظروں میں خدا جانے اسے مل ڈالا
نرگس آج آنکھ اٹھاتی نہیں بیماری سے

کیا کہوں ولولۂ شوق کو تیرے میں امیرؔ
گھر میں جاتے ہیں پرائے تو خبرداری سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse