سرد آج کل اس درجہ زمانے کی ہوا ہے
سرد آج کل اس درجہ زمانے کی ہوا ہے
انجام کے احساس سے دل کانپ رہا ہے
وہ شکل جو آتے ہی نظر ہو گئی غائب
جادو ہے کہ بجلی کہ چھلاوا کہ بلا ہے
کشمیر جسے کہتے ہیں سب غیرت فردوس
جب تو ہی نہیں ہے پاس تو دوزخ سے سوا ہے
کہسار پر یہ ابر کے پھرتے ہوئے سائے
اک عالم شاداب تجھے ڈھونڈ رہا ہے
گر بادلہ سر پر ہے تو مخمل ہے تہہ پا
القصہ عجب منظر پر زیب و ضیا ہے
آ اور مری چشم تصور میں سما جا
آئینہ ترا دیر سے بے عکس پڑا ہے
اے فوقؔ میں ہوں اس لیے محتاج رفاقت
تنہا رہ منزل میں کوئی چھوڑ گیا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |