سرزمین زلف میں کیا دل ٹھکانے لگ گیا
سرزمین زلف میں کیا دل ٹھکانے لگ گیا
اک مسافر تھا سر منزل ٹھکانے لگ گیا
گلشن ہستی نہیں جائے شگفتن اے صبا
دیکھ جو غنچہ گیا یاں کھل ٹھکانے لگ گیا
آبرو رکھ لی خدا نے اس کی ہم چشموں میں آہ
تیغ ابرو کا تری گھائل ٹھکانے لگ گیا
فرصت یک دم پہ پھولا تھا حباب آب جو
تھا جو نقش صفحۂ باطل ٹھکانے لگ گیا
جان شیریں دی ترے عاشق نے بھی جوں کوہ کن
سر سے اپنے مار کر اک سل ٹھکانے لگ گیا
رکھ قدم ہشیار ہو کر عشق کی منزل میں آہ
جو ہوا اس راہ میں غافل ٹھکانے لگ گیا
چھاؤں میں نخل مژہ کی لوٹتا ہے طفل اشک
خاک میں یا رفتہ رفتہ مل ٹھکانے لگ گیا
آشنا کوئی نہ دیکھا غرق بحر عشق کا
ایک دم میں جو تہ ساحل ٹھکانے لگ گیا
بے کلی کیوں کر نہ ہووے اس کی فرقت میں نصیرؔ
عشق میں اس گل بدن کے دل ٹھکانے لگ گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |