سرکنڈوں کے پیچھے (افسانہ)

سرکنڈوں کے پیچھے (1955)
by سعادت حسن منٹو
324921سرکنڈوں کے پیچھے1955سعادت حسن منٹو

کون سا شہر تھا، اس کے متعلق جہاں تک میں سمجھتا ہوں، آپ کو معلوم کرنے اور مجھے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ وہ جگہ جو اس کہانی سے متعلق ہے، پشاور کے مضافات میں تھی۔ سرحد کے قریب۔ اور جہاں وہ عورت تھی، اس کا گھر جھونپڑا نما تھا۔۔۔ سرکنڈوں کے پیچھے۔

گھنی باڑھ تھی، جس کے پیچھے اس عورت کا مکان تھا، کچی مٹی کا بنا ہوا۔ چونکہ یہ باڑھ سے کچھ فاصلے پر تھا، اس لیے سرکنڈوں کے پیچھے چھپ سا گیا تھا کہ باہر کچی سڑک پر سے گزرنے والا کوئی بھی اسے دیکھ نہیں سکتا تھا۔سرکنڈے بالکل سوکھے ہوئے تھے مگر وہ کچھ اس طرح زمین میں گڑے ہوئے تھے کہ ایک دبیز پردہ بن گیے تھے۔ معلوم نہیں اس عور ت نے خود وہاں پیوست کیے تھے یا پہلے ہی سے موجود تھے۔ بہر حال، کہنا یہ ہے کہ وہ آہنی قسم کے پردہ پوش تھے۔

مکان کہہ لیجئے یا مٹی کا جھونپڑا، صرف چھوٹی چھوٹی تین کوٹھریاں تھیںمگر صاف ستھری۔ سامان مختصر تھا مگر اچھا۔ پچھلے کمرے میں ایک بہت بڑا نواڑی پلنگ تھا۔ اس کے ساتھ ایک طاقچہ تھا جس میں سرسوں کے تیل کا دیا رات بھر جلتا رہتا تھا۔۔۔ مگر یہ طاقچہ بھی صاف ستھرا رہتا تھا۔ اور وہ دیا بھی جس میں ہر روز نیا تیل اور بتی ڈالی جاتی تھی۔

اب میں آپ کو اس عورت کا نام بتادوں جو اس مختصر سے مکان میں، جو سرکنڈوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا، اپنی جوان بیٹی کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔ مختلف روایتیں ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اس کی بیٹی نہیں تھی ایک یتیم لڑکی تھی، جس کو اس نے بچپن سے گود لے کرپال پوس کر بڑا کیا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کی ناجائز لڑکی تھی۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ وہ اس کی سگی بیٹی تھی۔۔۔ حقیقت جو کچھ بھی ہے، اس کے متعلق وثوق سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ یہ کہانی پڑھنے کے بعد آپ خودبخود کوئی نہ کوئی رائے قائم کرلیجئے گا۔

دیکھیے، میں آپ کو اس عورت کا نام بتانا بھول گیا۔۔۔ بات اصل میں یہ ہے کہ اس کا نام کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس کا نام آپ کچھ بھی سمجھ لیجیے، سکینہ، مہتاب، گلشن یا کوئی اور۔ آخر نام میں کیا رکھا ہے لیکن آپ کی سہولت کی خاطر میں اسے سردار کہوں گا۔

یہ سردار، ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ کسی زمانے میں یقیناخوبصورت تھی۔ اس کے سرخ و سفید گالوں پر گو کسی قدر جھریاں پڑ گئی تھیں، مگر پھر بھی وہ اپنی عمر سے کئی برس چھوٹی دکھائی دیتی تھی مگر ہمیں اس کے گالوں سے کوئی تعلق نہیں۔

اس کی بیٹی، معلوم نہیں وہ اس کی بیٹی تھی یا نہیں، شباب کا بڑا دلکش نمونہ تھی۔ اس کے خدوخال میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکے کہ وہ فاحشہ ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کی ماں اس سے پیشہ کراتی تھی اور خوب دولت کما رہی تھی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس لڑکی کو، جس کا نام پھر آپ کی سہولت کی خاطر نواب رکھے دیتا ہوں، کو اس پیشے سے نفرت نہیں تھی۔

اصل میں اس نے آبادی سے دور ایک ایسے مقام پر پرورش پائی تھی کہ اس کو صحیح ازدواجی زندگی کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ جب سردار نے اس سے پہلا مرد بستر پر۔۔۔ نواڑی پلنگ پر متعارف کروایا تو غالباً اس نے یہ سمجھا کہ تمام لڑکیوں کی جوانی کا آغاز کچھ اسی طرح ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی اس کسبیانہ زندگی سے مانوس ہوگئی تھی اور وہ مرد جو دور دور سے چل کر اس کے پاس آتے تھے اور اس کے ساتھ اس بڑے نواڑی پلنگ پر لیٹتے تھے، اس نے سمجھا تھا کہ یہی اس کی زندگی کا منتہیٰ ہے۔

یوں تو وہ ہر لحاظ سے ایک فاحشہ عورت تھی، ان معنوں میں جن میں ہماری شریف اور مطہر عورتیں ایسی عورتوں کو دیکھتی ہیں، مگر سچ پوچھیے تو اس امر کا قطعاً احساس نہ تھا کہ وہ گناہ کی زندگی بسر کررہی ہے۔۔۔ وہ اس کے متعلق غور بھی کیسے کرسکتی تھی جب کہ اس کو اس کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔اس کے جسم میں خلوص تھا۔ وہ ہر مرد کو جو اس کے پاس ہفتے ڈیڑھ ہفتے کے بعد طویل مسافت طے کرکے آتا تھا، اپنا آپ سپرد کردیتی تھی، اس لیے کہ وہ یہ سمجھتی تھی کہ ہر عورت کا یہی کام ہے۔ اور وہ اس مرد کی ہر آسائش، اس کے ہر آرام کا خیال رکھتی تھی۔ وہ اس کی کوئی ننھی سی تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتی تھی۔

اس کو شہر کے لوگوں کے تکلفات کا علم نہیں تھا۔ وہ یہ قطعاً نہیں جانتی تھی کہ جو مرد اس کے پاس آتے ہیں، صبح سویرے اپنے دانت برش کے ساتھ صاف کرنے کے عادی ہیں اور آنکھیں کھول کر سب سے پہلے بستر میں چائے کی پیالی پیتے ہیں، پھر رفع حاجت کے لیے جاتے ہیں، مگر اس نے آہستہ آہستہ بڑے الہڑ طریقے پر ان مردوں کی عادات سے کچھ واقفیت حاصل کرلی تھی۔ پر اسے بڑی الجھن ہوتی تھی کہ سب مرد ایک طرح کے نہیں ہوتے تھے۔ کوئی صبح سویرے اٹھ کر سگریٹ مانگتا تھا، کوئی چائے اور بعض ایسے بھی ہوتے جو اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ کچھ ساری رات جاگتے رہتے اور صبح موٹر میں سوار ہو کر بھاگ جاتے تھے۔

سردار بے فکر تھی۔ اس کو اپنی بیٹی پر، یا جو کچھ بھی وہ تھی، پورا اعتماد تھا کہ وہ اپنے گاہکوں کو سنبھال سکتی ہے، اس لیے وہ افیم کی ایک گولی کھا کرکھاٹ پر سوئی رہتی تھی۔ کبھی کبھار جب اس کی ضرورت پڑتی۔۔۔ مثال کے طور پر جب کسی گاہک کی طبیعت زیادہ شراب پینے کے باعث یکدم خراب ہوتی تو وہ غنودگی کے عالم میں اٹھ کر نواب کو ہدایات دے دیتی تھی کہ اس کو اچار کھلادے یا کوشش کرے کہ وہ نمک ملا گرم گرم پانی پلا کر قے کرادے اور بعد میں تھپکیاں دے کر سلا دے۔

سردار اس معاملے میں بڑی محتاط تھی کہ جونہی گاہک آتا، وہ اس سے نواب کی فیس پہلے وصول کرکے اپنے نیفے میں محفوظ کرلیتی تھی اور اپنے مخصوص انداز میں دعائیں دے کر کہ تم آرام سے جھولے جھولو، افیم کی ایک گولی ڈبیا میں سے نکال کر منہ میں ڈال کر سو جاتی۔

جو روپیہ آتا، اس کی مالک سردار تھی۔ لیکن جو تحفے تحائف وصول ہوتے، وہ نواب ہی کے پاس رہتے تھے۔ چونکہ اس کے پاس آنے والے لوگ دولت مند ہوتے، اس لیے وہ بڑھیا کپڑا پہنتی اور قسم قسم کے پھل اور مٹھائیاں کھاتی تھی۔

وہ خوش تھی۔۔۔ مٹی سے لپے پتے اس مکان میں جو صرف تین چھوٹی چھوٹی کوٹھریوں پر مشتمل تھا، وہ اپنی دانست کے مطابق بڑی دلچسپ اور خوش گوار زندگی بسر کررہی تھی۔۔۔ ایک فوجی افسر نے اسے گرامو فون اور بہت سے ریکارڈلا دیے تھے۔ فرصت کے اوقات میں وہ ان کو بجا بجا کر فلمی گانے سنتی اور ان کی نقل اتارنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔ اس کے گلے میں کوئی رس نہیں تھا مگر شاید وہ اس سے بے خبر تھی۔۔۔ سچ پوچھیے تو اس کو کسی بات کی خبر بھی نہیں تھی اور نہ اس کو اس بات کی خواہش تھی کہ وہ کسی چیز سے باخبر ہو۔جس راستے پر وہ ڈال دی گئی تھی، اس کو اس نے قبول کرلیا تھا۔۔۔ بڑی بے خبری کے عالم میں۔

سرکنڈوں کے اس پار کی دنیا کیسی ہے، اس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتی تھی سوائے اس کےکہ ایک کچی سڑک ہے جس پر ہر دوسرے تیسرے دن ایک موٹر دھول اڑاتی ہوئی آتی ہے اور رک جاتی ہے۔ ہارن بجتا ہے۔ اس کی ماں یا جو کوئی بھی وہ تھی، کھٹیا سے اٹھتی ہے اور سرکنڈوں کے پاس جا کر موٹر والے سے کہتی ہے کہ موٹر ذرا دور کھڑی کرکے اندر آ جائے۔ اور وہ اندر آجاتا ہے اور نواڑی پلنگ پر اس کے ساتھ بیٹھ کر میٹھی میٹھی باتوں میں مشغول ہو جاتا ہے۔

اس کے ہاں آنے جانے والوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ یہی پانچ چھ ہوں گے مگر یہ پانچ چھ مستقل گاہک تھے اور سردار نے کچھ ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ ان کا باہم تصادم نہ ہو۔ بڑی ہوشیار عورت تھی۔۔۔ وہ ہر گاہک کے لیے خاص دن مقرر کردیتی، اور ایسے سلیقے سے کہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملتاتھا۔

اس کے علاوہ ضرورت کے وقت وہ اس کا بھی انتظام کرتی رہتی کہ نواب ماں نہ بن جائے۔ جن حالات میں نواب اپنی زندگی گزار رہی تھی، ان میں اس کا ماں بن جانا یقینی تھا مگر سردار دو ڈھائی برس سے بڑی کامیابی کے ساتھ اس قدرتی خطرے سے نبٹ رہی تھی۔

سرکنڈوں کے پیچھے یہ سلسلہ دو ڈھائی برس سے بڑے ہموار طریقے پر چل رہا تھا۔ پولیس والوں کو بالکل علم نہیں تھا۔ بس صرف وہی لوگ جانتے تھے جو وہاں آتے تھے۔یا پھر سردار اور اس کی بیٹی نواب، یا جو کوئی بھی وہ تھی۔

سرکنڈوں کے پیچھے، ایک دن مٹی کے اس مکان میں ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ ایک بہت بڑی موٹر جو غالباً ڈوج تھی وہاں آکے رکی۔ ہارن بجا۔ سردار باہر آئی تو اس نے دیکھا کوئی اجنبی ہے۔ اس نے اس سے کوئی بات نہ کی۔ اجنبی نے بھی اس سے کچھ نہ کہا۔ موٹر دور کھڑی کرکے وہ اترا اور سیدھا ان کے گھر میں گھس گیا جیسے برسوں کا آنے جانے والا ہو۔

سردار بہت سٹپٹائی، لیکن دروازے کی دہلیز پر نواب نے اس اجنبی کا بڑی پیاری مسکراہٹ سے خیر مقدم کیا اور اسے اس کمرے میں لے گئی جس میں نواڑی پلنگ تھا۔ دونوں اس پر ساتھ ساتھ بیٹھے ہی تھے کہ سردار آگئی۔۔۔ ہوشیار عورت تھی۔ اس نے دیکھا کہ اجنبی کسی دولت مند گھرانے کا آدمی ہے۔ خوش شکل ہے، صحت مند ہے۔ اس نے اندر کوٹھری میں داخل ہو کر سلام کیا اور پوچھا، ’’آپ کو ادھر کاراستہ کس نے بتایا؟‘‘

اجنبی مسکرایا اور بڑے پیار سے نواب کے گوشت بھرے گالوں میں اپنی انگلی چبھو کرکہا، ’’اس نے؟‘‘

نواب تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی، ایک ادا کے ساتھ کہا، ’’ہائیں۔۔۔ میں تو کبھی تم سے ملی بھی نہیں؟‘‘

اجنبی کی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر اور زیادہ پھیل گئی۔ ’’ہم تو کئی بار تم سے مل چکے ہیں۔‘‘

نواب نے پوچھا، ’’کہاں۔۔۔ کب؟‘‘ حیرت کے عالم میں اس کا چھوٹا سا منہ کچھ اس طور پر وا ہوا کہ اس کے چہرے کی دلکشی میں اضافے کا موجب ہوگیا۔ اجنبی نے اس کا گدگدا ہاتھ پکڑ لیا اور سردار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’تم یہ باتیں ابھی نہیں سمجھ سکتیں۔۔۔ اپنی ماں سے پوچھو۔‘‘

نواب نے بڑے بھول پن کے ساتھ اپنی ماں سے پوچھا کہ یہ شخص اس سے کب اور کہاں ملا تھا۔ سردار سارا معاملہ سمجھ گئی کہ وہ لوگ جو اس کے یہاں آتے ہیں، ان میں سے کسی نے اس کے ساتھ نواب کا ذکر کیا ہوگا اور سارا اتا پتا بتا دیا ہوگا چنانچہ اس نے نواب سے کہا، ’’میں بتادوں گی تمہیں۔‘‘ اور یہ کہہ کروہ باہر چلی گئی۔ کھٹیا پر بیٹھ کر اس نے ڈبیا میں سے افیم کی گولی نکالی اور لیٹ گئی۔ وہ مطمئن تھی کہ آدمی اچھا ہے گڑ بڑ نہیں کرے گا۔

وثوق سے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن اغلب یہی ہے کہ اجنبی جس کا نام ہیبت خان تھا اور ضلع ہزارہ کا بہت بڑارئیس تھا، نواب کے الہڑ پن سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے رخصت ہوتے وقت سردار سے کہا کہ آئندہ نواب کے پاس اور کوئی نہ آیا کرے۔ سردار ہوشیار عورت تھی۔ اس نے ہیبت خان سے کہا، ’’خان صاحب! یہ کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔ کیا آپ اتنا روپیہ دے سکیں گے کہ۔۔۔ ‘‘

ہیبت خان نے سردار کی بات کاٹ کر جیب میں ہاتھ ڈالا اور سو سو کے نوٹوں کی ایک موٹی گڈی نکالی اور نواب کے قدموں میں پھینک دی۔ پھر اس نے اپنی ہیرے کی انگوٹھی انگلی سے نکالی اور نواب کو پہنا کر تیزی سے سرکنڈوں کے اس پار چلا گیا۔

نواب نے نوٹوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ بس دیر تک اپنی سجی ہوئی انگلی کودیکھتی رہی جس پر کافی بڑے ہیرے سے رنگ رنگ کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ موٹر اسٹارٹ ہوئی اور دھول اڑاتی چلی گئی۔ اس کے بعد وہ چونکی اور سرکنڈوں کے پاس آئی، مگر اب گردوغبار کے سوا سڑک پر کچھ نہ تھا۔

سردار نوٹوں کی گڈی اٹھا کر انھیں گن چکی تھی۔ ایک نوٹ اور ہوتا تو پورے دو ہزار تھے۔ مگر اس کو اس کا افسوس نہیں تھا۔ سارے نوٹ اس نے اپنی گھیرے دار شلوارکے نیفے میں بڑی صفائی سے اڑسے اور نواب کو چھوڑ کر اپنی کھٹیا کی طرف بڑھی اور ڈبیا میں سے افیم کی ایک بڑی گولی نکال کر اس نے منہ میں ڈالی اور بڑے اطمینان سے لیٹ گئی اور دیر تک سوتی رہی۔

نواب بہت خوش تھی۔بار بار اپنی اس انگلی کو دیکھتی تھی جس پر ہیرے کی انگوٹھی تھی۔۔۔ تین چار روز گزرگیے۔ اس دوران میں اس کا ایک پرانا گاہک آیا جس سے سردار نے کہہ دیا کہ پولیس کا خطرہ ہے، اس لیے اس نے یہ دھندہ بند کردیا ہے۔ یہ گاہک جو خاصا دولت مند تھا، بے نیل و مرام واپس چلا گیا۔ سردار کو ہیبت خان نے بہت متاثر کیا تھا۔ اس نے افیم کھا کر پینگ کے عالم میں سوچا تھا کہ اگر آمدن اتنی ہی رہے جتنی کہ پہلے تھی اور آدمی صرف ایک ہوتو بہت اچھا ہے۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ باقیوں کو آہستہ آہستہ یہ کہہ کرٹرخا دے گی کہ پولیس والے اس کے پیچھے ہیں اور یہ نہیں دیکھ سکتی کہ ان کی عزت خطرے میں پڑے۔

ہیبت خان ایک ہفتے کے بعد نمودار ہوا۔ اس دوران میں سردار دو گاہکوں کو منع کر چکی تھی کہ وہ اب ادھر کا رخ نہ کریں۔وہ اسی شان سے آیا جس شان سے پہلے روز آیا تھا۔ آتے ہی اس نے نواب کو اپنی چھاتی کے ساتھ بھینچ لیا۔ سردار نے اس سے کوئی بات نہ کی۔ نواب اسے۔۔۔ بلکہ یوں کہیے کہ ہیبت خان اسے اس کوٹھری میں لے گیا جہاں نواڑی پلنگ تھا۔ اب کے سردار اندر نہ آئی اور اپنی کھٹیا پر افیم کی گولی کھا کر اونگھتی رہی۔

ہیبت خان بہت محظوظ ہوا۔ اس کو نواب کا الہڑ پن اور بھی زیادہ پسند آیا۔ وہ پیشہ ور رنڈیوں کے چلتروں سے قطعاً ناواقف تھی۔ اس میں وہ گھریلو پن بھی نہیں تھا جو عام عورتوں میں ہوتا ہے۔ اس میں کوئی ایسی بات تھی جو خود اس کی اپنی تھی۔ دوسروں سے مختلف۔ وہ بستر میں اس کے ساتھ اس طرح لیٹتی تھی، جس طرح بچہ اپنی ماں کے ساتھ لیٹتا ہے۔ اس کی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرتا ہے۔ اس کی ناک کے نتھنوں میں انگلیاں ڈالتا ہے، اس کے بال نوچتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ سو جاتا ہے۔

ہیبت خان کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ اس کے لیے عورت کی یہ قسم بالکل نرالی، دلچسپ اور فرحت بخش تھی۔ وہ اب ہفتے میں دوبار آنے لگا تھا۔ نواب اس کے لیے ایک بے پناہ کشش بن گئی تھی۔سردار خوش تھی کہ اس کے نیفے میں اڑسنے کے لیے کافی نوٹ مل جاتے ہیں۔۔۔ لیکن نواب اپنے الہڑ پن کے باوجود بعض اوقات سوچتی تھی کہ ہیبت خان ڈرا ڈرا سا کیوں رہتا ہے۔ اگر کچی سڑک پر سے، سرکنڈوں کے اس پار کوئی لاری یا موٹر گزرتی ہے تو وہ کیوں سہم جاتا ہے۔ کیوں اس سے الگ ہو کرباہر نکل جاتا ہے اور چھپ چھپ کر دیکھتا ہے کہ کون تھا۔

ایک رات بارہ بجے کے قریب سڑک پرسے کوئی لاری گزری۔ ہیبت خان اور نواب دونوں ایک دوسرے سے گتھے ہوئے سورہے تھے کہ ایک دم ہیبت خان بڑے زور سے کانپا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ نواب کی نیند بڑی ہلکی تھی۔ وہ کانپا تو وہ سر سے پیر تک یوں لرزی جیسے اس کے اندر زلزلہ آگیا ہے۔ چیخ کر اس نے پوچھا، ’’کیا ہوا؟‘‘

ہیبت خان اب کسی قدر سنبھل چکا تھا۔ اس نے خود کو اور زیادہ سنبھال کر اس سے کہا، ’’کوئی بات نہیں۔۔۔ میں۔۔۔ میں شاید خواب میں ڈرگیا تھا۔‘‘

لاری کی آواز دور سے رات کی خاموشی میں ابھی تک آرہی تھی۔

نواب نے اس سے کہا، ’’نہیں خان۔۔۔ کوئی اور بات ہے۔ جب بھی کوئی موٹر یا لاری سڑک پر سے گزرتی ہے، تمہاری یہی حالت ہوتی ہے۔‘‘

ہیبت خان کی شاید یہ دکھتی رگ تھی جس پر نواب نے ہاتھ رکھ دیا تھا۔ اس نے اپنا مردانہ وقار قائم رکھنے کے لیے بڑے تیز لہجے میں کہا، ’’بکتی ہو تم۔۔۔ موٹروں اور لاریوں سے ڈرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟‘‘

نواب کا دل بہت نازک تھا۔ ہیبت خان کے تیزلہجے سے اس کو ٹھیس لگی اور اس نے بلک بلک کر رونا شروع کردیا۔ ہیبت خان نے جب اس کو چپ کرایا تووہ اپنی زندگی کے ایک لطیف ترین خط سے آشنا ہوا اور اس کا جسم نواب کے جسم سے اور زیادہ قریب ہوگیا۔

ہیبت خان اچھے قد کاٹھ کا آدمی تھا۔ اس کا جسم گٹھا ہوا تھا۔ خوبصورت تھا۔ اس کی بانھوں میں نواب نے پہلی بار بڑی پیاری حرارت محسوس کی تھی۔ اس کو جسمانی لذت کی الف بے اسی نے سکھائی تھی۔ وہ اس سے محبت کرنے لگی تھی۔ یوں کہیے کہ وہ شے جو محبت ہوتی ہے، اس کے معانی اب اس پر آشکار ہورہے تھے۔ وہ اگر ایک ہفتہ غائب رہتا تو نواب گراموفون پر دردیلے گیتوں کے ریکارڈ لگا کر خود ان کے ساتھ گاتی اور آہیں بھرتی تھی۔ مگر اس کو اس بات کی بڑی الجھن تھی کہ ہیبت خان موٹروں کی آمدورفت سے کیوں گھبراتا ہے۔

مہینوں گزر گیے۔ نواب کی سپردگی اور اس کے التفات میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر ادھر اس کی الجھن بڑھتی گئی کہ اب ہیبت خان چند گھنٹوں کے لیے آتا اور افراتفری کے عالم میں واپس چلا جاتا تھا۔ نواب محسوس کررہی تھی کہ یہ سب کسی مجبوری کی وجہ سے ہے، ورنہ ہیبت خان کا جی چاہتا ہے کہ وہ زیادہ دیر ٹھہرے۔

اس نے کئی مرتبہ اس سے اس بارے میں پوچھا، مگر وہ گول کرگیا۔ ایک دن صبح سویرے اس کی ڈوج سرکنڈوں کے پار رکی۔ نواب سو رہی تھی۔ ہارن بجا تو چونک کر اٹھی۔ آنکھیں ملتی ملتی باہر آئی۔ اس وقت تک ہیبت خان اپنی موٹر دور کھڑی کرکے مکان کے پاس پہنچ چکا تھا۔ نواب دوڑ کر اس سے لپٹ گئی۔ وہ اسے اٹھا کر اندر کمرے میں لے گیا جہاں نواڑ کا پلنگ تھا۔

دیر تک دونوں باتیں کرتے رہے۔ پیار محبت کی باتیں۔۔۔ معلوم نہیں نواب کے دل میں کیا آئی کہ اس نے اپنی زندگی کی پہلی فرمائش کی۔’’خان۔۔۔ مجھے سونے کے کڑے لا دو۔‘‘

ہیبت خان نے اس کی موٹی موٹی گوشت بھری سرخ و سفید کلائیوں کو کئی مرتبہ چوما اور کہا، ’’کل ہی آجائیں گے۔ تمہارے لیے تو میری جان بھی حاضر ہے۔‘‘

نواب نے ایک ادا کے ساتھ،مگر اپنے مخصوص الہڑ انداز میں کہا، ’’خان صاحب۔۔۔ جانے دیجیے۔۔۔ جان تو مجھے ہی دینی پڑے گی۔‘‘

ہیبت خان یہ سن کر کئی بار اس کے صدقے ہوا۔۔۔ اور بڑا پرلطف وقت گزار کے چلا گیا، اور وعدہ کر گیا کہ وہ دوسرے دن آئے گا اور سونے کے کڑے اس کے نرم نرم ہاتھوں میں خود پہنائے گا۔

نواب خوش تھی۔ اس رات وہ دیر تک مسرت بھرے ریکارڈ بجا بجا کر اس چھوٹی سی کوٹھری میں ناچتی رہی جس پر نواڑی پلنگ تھا۔۔۔ سردار بھی خوش تھی۔ اس رات اس نے پھر اپنی ڈبیا سے افیم کی ایک بڑی گولی نکالی اور اسے نگل کرسو گئی۔

دوسرے دن نواب اور زیادہ خوش تھی کہ سونے کے کڑے آنے والے ہیں اور ہیبت خان خود اس کو پہنانے والا ہے۔ وہ سارا دن منتظر رہی پر وہ نہ آیا۔ اس نے سوچا شاید موٹر خراب ہوگئی ہو۔۔۔ شاید رات ہی کو آئے مگر وہ ساری رات جاگتی رہی اور ہیبت خان نہ آیا۔ اس کے دل کو، جو بہت نازک تھا، بڑی ٹھیس پہنچی۔ اس نے اپنی ماں کو، یا جو کچھ بھی وہ تھی، بار بار کہا، ’’دیکھو، خان نہیں آیا، وعدہ کرکے پھر گیا ہے۔‘‘ لیکن پھر وہ سوچتی اور کہتی، ’’ایسا نہ ہو، کچھ ہوگیا ہو۔‘‘ اور وہ سہم جاتی۔

کئی باتیں اس کے دماغ میں آتی تھیں۔ موٹر کا حادثہ، اچانک بیماری، کسی ڈاکو کا حملہ۔۔۔ لیکن بار بار اس کو لاریوں اور موٹروں کی آوازوں کا خیال آتا تھا جن کو سن کر ہیبت خان ہمیشہ بوکھلا جاتا تھا۔۔۔ وہ اس کے متعلق پہروں سوچتی تھی، مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا۔

ایک ہفتہ گزر گیا۔ اس دوران میں اس کا کوئی پرانا گاہک بھی نہ آیا، اس لیے کہ سردار ان سب کو منع کر چکی تھی۔ تین چار لاریاں اور دو موٹریں البتہ اس کچی سڑک پر سے دھول اڑاتی گزریں۔ نواب کا ہر بار یہی جی چاہا کہ دوڑتی ہوئی ان کے پیچھے جائے اور ان کو آگ لگا دے۔ اس کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہی وہ چیزیں ہیں جو ہیبت خان کے یہاں آنے میں رکاوٹ کا باعث ہیں، مگر پھر سوچتی کہ موٹریں اور لاریاں رکاوٹ کا کیا باعث ہو سکتی ہیں، وہ اپنی کم عقلی پر ہنستی۔

لیکن یہ بات اس کے فہم سے بالاتر تھی کہ ہیبت خان جیسا تنومند مرد ان کی آواز سن کر سہم کیوں جاتا ہے۔ اس حقیقت کو اس کے دماغ کی پیدا کی ہوئی دلیل جھٹلا نہیں سکتی تھی۔ اور جب ایسا ہوتا تو بے حد رنجیدہ اور مغموم ہو جاتی اور گراموفون پر دردیلے ریکارڈ لگا کر سننا شروع کردیتی اور اس کی آنکھیں نمناک ہو جاتیں۔

ایک ہفتے کے بعد دوپہر کو جب نواب اور سردار کھانا کھا کر فارغ ہو چکی تھیں اور کچھ دیر آرام کرنے کی سوچ رہی تھیں کہ اچانک باہر سڑک پر سے موٹر کے ہارن کی آواز سنائی دی۔ دونوں یہ آواز سن کر چونکیں کیوں کہ ہیبت خان کی ڈوج کے ہارن کی آواز نہیں تھی۔۔۔ سردار باہر لپکی کہ دیکھے کون ہے، پرانا آدمی ہوا تو اسے ٹرخا دے گی۔ مگر جب وہ سرکنڈوں کے پاس پہنچی تو اس نے دیکھا کہ ایک نئی موٹر میں ہیبت خان بیٹھا ہے۔ پچھلی نشست پر ایک خوش پوش اور خوبصورت عورت ہے۔

ہیبت خان نے موٹر کچھ دور کھڑی کی اور باہر نکلا۔ اس کے ساتھ ہی پچھلی نشست سے وہ عورت۔۔۔ دونوں ان کے مکان کی طرف بڑھے۔ سردار نے سوچا کہ یہ کیا سلسلہ ہے۔عورت کے لیے تو ہیبت اتنی دور سے چل کر یہاں آتا ہے، پھر یہ عورت جو اتنی خوبصورت ہے، جوان ہے، قیمتی کپڑوں میں ملبوس ہے، اس کے ساتھ یہاں کیا کرنے آئی ہے۔

وہ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ ہیبت خان اس خوبصورت کے ساتھ جس نے بیش قیمت زیور پہنے ہوئے تھے، مکان میں داخل ہوگیا۔ وہ ان کے پیچھے پیچھے چلی۔ اس کی طرف ان دونوں میں سے کسی نے دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ جب وہ اندر گئی تو ہیبت خان، نواب اور وہ عورت تینوں نواڑی پلنگ پر بیٹھے تھے اور خاموشی طاری تھی۔۔۔ عجیب قسم کی خاموشی۔ زیوروں سے لدی پھندی عورت البتہ کسی قدر مضطرب نظر آتی تھی کہ اس کی ایک ٹانگ بڑے زور سے ہل رہی تھی۔

سردار دہلیز کے پاس ہی کھڑی ہوگئی۔ اس کے قدموں کی آہٹ سن کر جب ہیبت خان نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے سلام کیا۔۔۔ ہیبت خان نے کوئی جواب نہ دیا۔وہ سخت بوکھلایا ہوا تھا۔ اس عورت کی ٹانگ ہلنا بند ہوئی اور وہ سردار سے مخاطب ہوئی، ’’ہم آئے ہیں۔ کھانے پینے کا تو بندوبست کرو۔‘‘ سردار نے سرتاپا مہمان نواز بن کر کہا، ’’جو تم کہو، ابھی تیار ہو جاتا ہے۔‘‘ اس عورت نے جس کے خدوخال سے صاف مترشح تھا کہ بڑی دھڑلے کی عورت ہے، سردار سے کہا، ’’تو چلو تم باورچی خانے میں۔۔۔ چولہا سلگاؤ۔۔۔ بڑی دیگچی ہے گھرمیں؟‘‘

’’ہے!‘‘ سردار نے اپنا وزنی سرہلایا۔

’’تو جاؤ اس کو دھو کرصاف کرو۔ میں ابھی آئی۔‘‘ وہ عورت پلنگ پر سے اٹھی اور گراموفون کو دیکھنے لگی۔

سردار نے معذرت بھرے لہجے میں اس سے کہا، ’’گوشت وغیرہ تو، یہاں نہیں ملے گا۔‘‘

اس عورت نے ایک ریکارڈ پر سوئی رکھی، ’’مل جائے گا۔ تم سے جو کہا ہے، وہ کرو۔۔۔ اور دیکھو آگ کافی ہو۔‘‘

سردار یہ احکام لے کر چلی گئی۔ اب وہ خوش پوش عورت مسکرا کر نواب سے مخاطب ہوئی، ’’نواب! ہم تمہارے لیے سونے کے کڑے لے کر آئے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا وینٹی بیگ کھولا اور اس میں سے باریک سرخ کاغذ میں لپٹے ہوئے کڑے نکالے جو کافی وزنی اور خوبصورت تھے۔

نواب اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے خاموش ہیبت خان کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے کڑوں کو ایک نظر دیکھا اور اس سے بڑی نرم و نازک مگر سہمی ہوئی آواز میں پوچھا، ’’خان یہ کون ہے؟‘‘اس کا اشارہ اس عورت کی طرف تھا۔

وہ عورت کڑوں سے کھیلتے ہوئے بولی، ’’میں کون ہوں۔۔۔ میں ہیبت خان کی بہن ہوں۔‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے ہیبت خان کی طرف دیکھا جو اس کے اس جواب پر سکڑ گیا تھا۔ پھر وہ نواب سے مخاطب ہوئی، ’’میرا نام ہلاکت ہے۔‘‘

نواب کچھ نہ سمجھی۔ مگر وہ اس عورت کی آنکھوں سے خوف کھا رہی تھی جو یقیناً خوبصورت تھیں مگر بڑے خوفناک طور پر کھلی۔ ان میں جیسے آگ برس رہی تھی۔

وہ آگے بڑھی اور اس نے سمٹی ہوئی، سہمی ہوئی نواب کی کلائیاں پکڑیں اور اس میں کڑے ڈالنے لگی۔ لیکن اس نے اس کی کلائیاں چھوڑ دیں اور ہیبت خان سے مخاطب ہوئی، ’’تم جاؤ ہیت خان۔۔۔ میں اسے اچھی طرح سجا بنا کر تمہاری خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ ہیبت خان مبہوت تھا۔ جب وہ نہ اٹھا تو ہ عورت جس نے اپنا نام ہلاکت بتایا تھا، ذرا تیزی سے بولی۔’’جاؤ۔۔۔ تم نے سنا نہیں؟‘‘ ہیبت خان، نواب کی طرف دیکھتا ہوا باہر چلا گیا۔ وہ بہت مضطرب تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کہاں جائے اور کیا کرے۔

مکان کے باہر جو برآمدہ ساتھا، اس کے ایک کونے میں ٹاٹ لگا باورچی خانہ تھا۔ جب وہ اس کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ سردارآگ سلگا چکی ہے۔ اس نے اس سے کوئی بات نہ کی اور سرکنڈوں کے اس پار سڑک پر چلا گیا۔۔۔ اس کی حالت نیم دیوانوں کی سی تھی۔ ذرا سی آہٹ پر بھی وہ چونک اٹھتا تھا۔ جب اس کو دور سے ایک لاری آتی ہوئی دکھائی دی تو اس نے سوچا کہ وہ اسے روک لے اور اس میں بیٹھ کر وہاں سے غائب ہو جائے۔ مگر جب وہ پاس آئی تو ایسی دھول اڑی کہ وہ اس میں غائب ہوگیا۔ اس نے آوازیں دیں،مگر گرد کے باعث اس کا حلق اس قابل ہی نہیں تھا کہ بلند آواز نکال سکے۔

گردوغبار کم ہوا تو ہیبت خان نیم مردہ تھا۔۔۔ اس نے چاہا کہ سرکنڈوں کے پیچھے اس مکان میں جائے جہاں اس نے کئی دن اور کئی راتیں نواب کے الہڑ پہلو میں گزاری تھیں، مگر وہ نہ جاسکا۔ اس کے قدم ہی نہیں اٹھتے تھے۔

وہ بہت دیر تک کچی سڑک پر کھڑا سوچتا رہا کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ وہ عورت جو اس کے ساتھ آئی تھی، اس کے ساتھ اس کے کافی پرانے تعلقات تھے، صرف اس بنا پر کہ بہت دیر ہوئی، وہ اس کے خاوند کی موت کا افسوس کرنے گیا تھا جو اس کا لنگوٹیا تھا۔ مگر اتفاق سے یہ ماتم پرسی ان دونوں کے باہمی تعلق میں تبدیل ہوگئی۔ خاوند کی موت کے دوسرے ہی دن وہ اس کے گھر میں تھا، اور اس عورت نے اس کو ایسے تحکم سے اندر بلا کر اپنا آپ اس کے سپرد کیا تھا جیسے وہ اس کا نوکر ہے۔

ہیبت خان عورت کے معاملے میں بالکل کورا تھا۔ جب شاہینہ نے اس سے اپنے عجیب و غریب تحکم بھرے التفات کا اظہار کیا تو اس کے لیے یہی بڑی بات تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہینہ کے پاس بے اندازہ دولت تھی۔ کچھ اپنی اور کچھ اپنے مرحوم خاوند کی، مگر اسے اس دولت سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اس کو شاہینہ سے صرف یہی دلچسپی تھی کہ وہ اس کی زندگی کی سب سے پہلی عورت تھی۔ وہ اس کے تحکم کے نیچے شاید اس لیے دب کے رہ گیا تھا کہ وہ بالکل اناڑی تھا۔

بہت دیر تک وہ کچی سڑک پر کھڑا سوچتا رہا۔ آخر اس سے نہ رہا گیا۔ سرکنڈوں کے پیچھے مکان کی طرف بڑھا تو اس نے برآمدے میں ٹاٹ لگے باورچی خانے میں سردار کو کچھ بھونتے ہوئے دیکھا۔ اندر اس کمرے کی طرف گیا جہاں نواڑ کا پلنگ تھا تو دروازہ بند پایا۔ اس نے ہولے سے دستک دی۔

چند لمحات کے بعد دروازہ کھلا۔ کچے فرش پر اس کو سب سے پہلے خون ہی خون نظر آیا۔ وہ کانپ اٹھا۔ پھر اس نے شاہینہ کو دیکھا جو دروازہ کے پٹ کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس نے ہیبت خان سے کہا، ’’میں نے تمہاری نواب کو سجا بنا دیا ہے!‘‘ ہیبت خان نے اپنے خشک گلے کو تھوک سے کسی قدر تر کرکے اس سے پوچھا، ’’کہاں ہے؟‘‘ شاہینہ نے جواب دیا۔’’کچھ تو اس پلنگ پر ہے۔۔۔ لیکن اس کا بہترین حصہ باورچی خانہ میں ہے۔‘‘

ہیبت خان پر اس کا مطلب سمجھے بغیر ہیبت طاری ہوگئی۔ وہ کچھ کہہ نہ سکا۔ وہیں دہلیز کے پاس کھڑا رہا۔ مگر اس نے دیکھا کہ فرش پر گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی ہیں اور۔۔۔ ایک تیز چھری بھی پڑی ہے۔ اور نواڑی پلنگ پر کوئی لیٹا ہے جس پر خون آلود چادرپڑی ہے۔ شاہینہ نے مسکرا کر کہا، ’’چادر اٹھا کر دکھاؤں۔۔۔ تمہاری سجی بنی نواب ہے۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے سنگھار کیا ہے۔۔۔ لیکن تم پہلے کھانا کھا لو۔ بہت بھوک لگی ہوگی، سردار بڑا لذیذ گوشت بھون رہی ہے۔ اس کی بوٹیاں میں نے خود اپنے ہاتھ سے کاٹی ہیں۔‘‘

ہیبت خان کے پاؤں لڑکھڑائے۔۔۔ زور سے چلایا، ’’شاہینہ تم نے یہ کیا کیا!‘‘

شاہینہ مسکرائی۔ ’’جان من!یہ پہلی مرتبہ نہیں۔۔۔ دوسری مرتبہ ہے۔ میرا خاوند، اللہ اسے جنت نصیب کرے، تمہاری طرح ہی بے وفا تھا۔ میں نے خود اس کو اپنے ہاتھوں سے مارا تھا اور اس کا گوشت پکا کر چیلوں اور کوؤں کو کھلایا تھا۔۔۔ تم سے مجھے پیار ہے، اس لیے میں نے تمہارے بجائے۔۔۔ ‘‘

اس نے فقرہ مکمل نہ کیا اور پلنگ پر سے خون آلود چادر ہٹادی۔۔۔ ہیبت خان کی چیخ اس کے حلق کے اندر ہی دھنسی رہی اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔

جب اسے ہوش آیا تو اس نے دیکھا کہ شاہینہ کار چلا رہی ہے اور وہ غیر علاقے میں ہیں۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.