سر شمع ساں کٹائیے پر دم نہ ماریے
سر شمع ساں کٹائیے پر دم نہ ماریے
منزل ہزار سخت ہو ہمت نہ ہاریے
مقسوم کا جو ہے سو وہ پہنچے گا آپ سے
پھیلائیے نہ ہاتھ نہ دامن پساریے
طالب کو اپنے رکھتی ہے دنیا ذلیل و خوار
زر کی طمع سے چھانتے ہیں خاک نیاریے
تنہائی ہے غریبی ہے صحرا ہے خار ہے
کون آشنائے حال ہے کس کو پکاریے
تم فاتحہ بھی پڑھ چکے ہم دفن بھی ہوئے
بس خاک میں ملا چکے چلئے سدھاریے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |