سر شوریدہ پائے دشت پیما شام ہجراں تھا
سر شوریدہ پائے دشت پیما شام ہجراں تھا
کبھی گھر تھا بیاباں میں کبھی گھر میں بیاباں تھا
ترے کشتے کو محشر خواب آسائش کا ساماں تھا
کہ صور افسانہ گو تھا زلزلہ گہوارۂ جنباں تھا
جسے سب نوح کے فرزند کہتے ہیں کہ طوفاں تھا
کسی جاندادۂ خاموش کا اندوہ پنہاں تھا
بلا سے چور کر دو چور کر دو شیشۂ دل کو
اسی میں قید حسرت تھی اسی میں بند ارماں تھا
نہ کھولی آنکھ وقت نزع بیمار محبت نے
کسی کا پردہ رکھنا تھا کوئی آنکھوں میں پنہاں تھا
اکیلے اے بتو ہم بھی نہ سوئے کنج مرقد میں
جو اس پہلو میں حسرت تھی تو اس پہلو میں ارماں تھا
گئے تھے روندنے دل کو لیے بیٹھے ہیں تلووں کو
فرو رگ رگ میں نشتر تھے نہاں نس نس میں پیکاں تھا
مری ہستی کی محشر میں کوئی تعبیر کیا کرتا
کسی زلف پریشاں کا میں اک خواب پریشاں تھا
قیامت تک پس از مردن رہی اک ٹیس سی دل میں
وہ کہتے ہیں کہ پیکاں تھا میں کہتا ہوں کہ ارماں تھا
حضور بلبل کلک بیاںؔ کس طرح کھلتے منہ
کہ بوئے غنچہ ساں محجوب نطق ہر سخن واں تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |