سر ملا ہے عشق کا سودا سمانے کے لئے

سر ملا ہے عشق کا سودا سمانے کے لئے
by منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی

سر ملا ہے عشق کا سودا سمانے کے لئے
آنکھیں دیں انسان کو آنسو بہانے کے لئے

اس کا ہنسنا یاد آتا ہے رلانے کے لئے
کچھ بہانہ چاہئے آنسو بہانے کے لئے

کوئی زاہد بن گیا ہے کوئی واعظ بن گیا
کیسے کیسے سوانگ ہیں روٹی کمانے کے لئے

نقد دل کو وارتے ہیں ہم لب پاں خوردہ پر
نذر لائے ہیں تمہارے پان کھانے کے لئے

مجھ پہ ہے چشم عتاب اوروں پہ شفقت کی نظر
مجھ کو عزرائیل عیسیٰ ہو زمانے کے لئے

کعبۂ امید کی تعظیم واجب تھی ضرور
ہم نے بوسے سحرؔ اس کے آستانے کے لئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse