سلف سے لوگ ان پہ مر رہے ہیں ہمیشہ جانیں لیا کریں گے
سلف سے لوگ ان پہ مر رہے ہیں ہمیشہ جانیں لیا کریں گے
یہی کرشمے ہوا کیے ہیں یہی کرشمے ہوا کریں گے
ہمیں جو بے جرم پیستے ہو یہ جانتے ہو کہ کیا کریں گے
خدا نے چاہا تو سرمہ ہو کر تمہاری آنکھوں میں جا کریں گے
نہ رہنے دیں گے کبھی وہ باہم تپاک دیکھیں گے ان میں جس دم
بدن سے خارج کریں گے جاں کو جگر سے دل کو جدا کریں گے
چمک ہے اس میں محبتانہ یہ بے قراری ہے عاشقانہ
مزا اٹھائیں گے درد دل کا کبھی نہ اس کی دوا کریں گے
بڑھا تو ہے ربط ہم سے تم سے خدا نے چاہا تو دیکھ لو گے
تمہارے پہلو میں یار دل کی طرح ہمیشہ رہا کریں گے
کسی کا احسان ہم نہ لیں گے کسی کو تکلیف کچھ نہ دیں گے
خدا نے پیدا کیا ہے ہم کو خدا ہی سے التجا کریں گے
جب آئیں گے وہ پئے عیادت تو ہوگی دل کو امید صحت
زمانہ مجھ کو دعا کرے گا مسیح میری دوا کریں گے
نہیں خوش اعمال اگر نہیں ہوں فرشتے تربت میں خشمگیں ہوں
خدا کی رحمت سے مطمئن ہوں یہ کیا کریں گے وہ کیا کریں گے
تمام ہوتے ہیں دیکھ جاؤں جمال آ کے ہمیں دکھاؤ
تمہارے غم میں لبوں پہ دم ہے کوئی گھڑی میں قضا کریں گے
رہے گی یاد ان کی خوش خرامی مرا سخن ہے یہ لا کلامی
قدم نہ پردے سے وہ نکالیں مری نظر میں پھرا کریں گے
رلائے جاتی ہے ان کی حسرت چلی ہی آتی ہے مجھ کو رقت
رہیں گی کاہے کو میری آنکھیں جو یوں ہی آنسو بہا کریں گے
ملا ہے آرام آشیاں کا نہیں کچھ اندیشہ باغباں کا
رہا بھی ہوں گے تو آ کے اکثر ہم اس قفس میں رہا کریں گے
کہیں ٹھکانا نہیں ہمارا تمہاری شفقت کا ہے سہارا
غریب ہیں دو ہمیں دلاسا تمہارے حق میں دعا کریں گے
لرز رہے ہیں ستانے والے خدا کے آگے کئی ہیں نالے
گریز ان سے کرے گا محشر یہ وہ قیامت بپا کریں گے
اگر چھٹے بھی قفس سے بلبل کرے گی برباد حسرت گل
رسائی ہوگی نہ آشیاں تک چمن میں تنکے چنا کریں گے
قبول ہوگی دعا ہماری کریں گے جس دم ہم آہ و زاری
کبھی نہ جائے گی اوپر اوپر ہماری حاجت روا کریں گے
نگاہیں ان پر جو ہم نے ڈالیں انہوں نے آنکھیں شرفؔ نکالیں
ستم یہ ڈھایا ہے کم سنی میں جوان ہو کے وہ کیا کریں گے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |