سمایا جب سے ہے وہ گلعذار آنکھوں میں
سمایا جب سے ہے وہ گلعذار آنکھوں میں
ہر ایک گل نظر آتا ہے خار آنکھوں میں
بتاؤ کس کا ہوا جام آرزو لبریز
کہ نشہ کا ہے ابھی تک خمار آنکھوں میں
یہ کس کے دید کی مشتاق ہے دم آخر
کہ میری روح کو ہے انتظار آنکھوں میں
جو چاہتے ہو عصا ٹیک کر اٹھے بیمار
لگاؤ سرمۂ دنبالہ دار آنکھوں میں
وہ رشک گل جو نہیں ہے ہمارے پہلو میں
برنگ خار سے فصل بہار آنکھوں میں
تمہاری دید کے سودے میں آ گیا سو بار
تڑپ تڑپ کے دل بے قرار آنکھوں میں
اسی سبب سے تو کھلتی نہیں ہے آنکھ مری
پھرا ہی کرتی ہے تصویر یار آنکھوں میں
میں دیکھتا نہیں بے وجہ سبزہ نوخیز
کبھی ہے سبزۂ خط کی بہار آنکھوں میں
مثال مردمک چشم ہے یہ مد نظر
رہیں حضور ہی لیل و نہار آنکھوں میں
دعا یہ رہتی ہے وہبیؔ کہ ان کے تلوے کا
لگاؤں سرمے کی صورت غبار آنکھوں میں
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |