سمجھ سکو تو یہ تشنہ لبی سمندر ہے
سمجھ سکو تو یہ تشنہ لبی سمندر ہے
بقدر ظرف ہر اک آدمی سمندر ہے
ابھر کے ڈوب گئی کشتئ خیال کہیں
یہ چاند ایک بھنور چاندنی سمندر ہے
جو داستاں نہ بنے درد بیکراں ہے وہی
جو آنکھ ہی میں رہے وہ نمی سمندر ہے
نہ سوچیے تو بہت مختصر ہے سیل حیات
جو سوچیے تو یہی زندگی سمندر ہے
تو اس میں ڈوب کے شاید ابھر سکے نہ کبھی
مرے حبیب مری خامشی سمندر ہے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |