سمجھ کے حور بڑے ناز سے لگائی چوٹ
سمجھ کے حور بڑے ناز سے لگائی چوٹ
جو اس نے آئنہ دیکھا تو خود ہی کھائی چوٹ
نظر لڑی جو نظر سے تو دل پر آئی چوٹ
گرے کلیم سر طور ایسی کھائی چوٹ
لبوں پہ بن گئی مسی جو دل پر آئی چوٹ
جگہ بدل کے لگی کرنے خود نمائی چوٹ
بڑے دماغ سے مارا نظر سے جب مارا
بڑے غرور سے آئی جو دل پر آئی چوٹ
کسی کا طور پہ نکلا ہے ہاتھ پردے سے
بڑا مزا ہو کرے گر تری کلائی چوٹ
یہ دوڑ دھوپ لڑکپن کی یک قیامت ہے
کہ ٹھوکروں سے قیامت نے خوب کھائی چوٹ
ابھی اٹھی نہ تھی نیچی نگاہ ظالم کی
تڑپ کے دل نے کہا وہ جگر پہ آئی چوٹ
جو آئے حشر میں وہ سب کو مارتے آئے
جدھر نگاہ پھری چوٹ پر لگائی چوٹ
جو دل کا آئنہ مل مل کے ہم نے صاف کیا
پھسل پھسل کے تمہاری نظر نے کھائی چوٹ
کلف نہیں ہے نشاں ہے یہ چاند ماری کا
ہمارے چاند نے لو چاند پر لگائی چوٹ
غش آ رہا ہے مجھے ذکر لن ترانی سے
لگی ہے دل پہ مرے لو سنی سنائی چوٹ
رکیں گے کیا کف گستاخ دست رنگیں سے
کہیں نہ کھائے ترا پنجۂ حنائی چوٹ
دل و جگر کو بتا کر وہ لوٹنا میرا
وہ پوچھنا ترا کس کس جگہ پر آئی چوٹ
مریض ہجر یہ سمجھا جو چمکی چرخ پہ برق
یہ آگ سینکنے لائی شب جدائی چوٹ
اٹھے تڑپ کے اٹھے تو گرے گرے تو مرے
پھڑک کے رہ گئے وہ چوٹ پر لگائی چوٹ
پڑے گی آہ جو میری کھلیں گے بند قبا
شب وصال کرے گی گرہ کشائی چوٹ
گرا ہوں خلد سے لنکا میں پہلے طور پہ بعد
جہاں جہاں میں گیا ساتھ ساتھ آئی چوٹ
وہ جھانک جھانک کے لڑتے ہیں مجھ سے یہ کہہ کر
جو ہم نے وار کیا تم نے کیوں بچائی چوٹ
جو درد دل میں اٹھا ان کی یاد کھچ آئی
دکھاتی ہے اثر جذب کہربائی چوٹ
اٹھا اٹھا کے دل مضطرب نے دے ٹپکا
گرا گرا کے مجھے چوٹ پر لگائی چوٹ
نگاہ شوخ سے جس دم نگاہ شوق لڑی
بڑا ہی لطف رہا یہ گئی وہ آئی چوٹ
لگائی اس نے جو ٹھوکر تو جی اٹھا مائلؔ
نکل کے جان پھر آئی کچھ ایسی کھائی چوٹ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |