سمجھ کے ظلم کرو اے بتو خدا بھی ہے
سمجھ کے ظلم کرو اے بتو خدا بھی ہے
تمہارے جور و جفا کی کچھ انتہا بھی ہے
اگر میں جاؤں گا پوچھوں گا یہ مسیحا سے
کہ میرے درد جگر کی کوئی دوا بھی ہے
کبھی رہا مرے لب تک کبھی وہاں پہنچا
یہ نالہ میرا رسا اور نارسا بھی ہے
فسانہ قیس کا لوگوں سے سن لیا ہوگا
یہ میرا قصۂ غم آپ نے سنا بھی ہے
مسافران عدم آئے دو گھڑی کے لیے
سرائے دہر میں آ کر کوئی رہا بھی ہے
تماشا دیکھیے وہ بعد قتل بھول گیا
کہ میرے در پہ کوئی کشتۂ ادا بھی ہے
جفا و جور سے ان کے تو ہو گیا عاجز
بتوں کے عشق کا اس دل میں حوصلا بھی ہے
سمجھ کے خار مغیلاں تو سر اٹھا اپنا
کہ رہروؤں میں اک عاشق برہنہ پا بھی ہے
سفینہ بحر مصیبت سے پار کر دے گا
خدا سمجھتے ہو جس کو وہ ناخدا بھی ہے
اٹھاؤ شوق سے منزل میں تم قدم اپنے
کہ راہزن جو ہے اس میں وہ رہنما بھی ہے
نظر سے شیخ کی چھپ کر چلا ہوں پینے کو
جمیلہؔ ابر ہے بارش ہے اور ہوا بھی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |