سمند گرم جو یاں اس سوار کا پہنچا

سمند گرم جو یاں اس سوار کا پہنچا
by میر شیر علی افسوس

سمند گرم جو یاں اس سوار کا پہنچا
غبار تا فلک اس خاکسار کا پہنچا

تو سچ بتا کہ تجھے اتنی کیوں ہے بے چینی
مگر پیام کسی بے قرار کا پہنچا

ملے ہے پاؤں سے اپنے وہ لالہ رو ہر دم
یہ مرتبہ تو دل داغدار کا پہنچا

ہے یاں تلک تو نزاکت گلوں کے گجرے سے
لچکنے لگتا ہے اس گل غدار کا پہنچا

قفس سے چھٹنے کی امید ہی نہیں افسوسؔ
حصول کیا ہے جو مژدہ بہار کا پہنچا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse