سنئے اے جاں کبھی اسیر کی عرض
سنئے اے جاں کبھی اسیر کی عرض
اپنے کوچے کے جا پذیر کی عرض
چھد گیا دل زباں تلک آتے
ہم نے جب کی نگہ کے تیر کی عرض
اس گھڑی کھلکھلا کے ہنس دیجے
ہے یہی اب تو کہنہ پیر کی عرض
جب تو اس گل بدن شکر لب نے
یوں کہا سن کے اس حقیر کی عرض
اب تلک دھن ہے حسن دنداں کی
دیکھ اس پوپلے نظیرؔ کی عرض
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |