سنا ہے زخمی تیغ نگہ کا دم نکلتا ہے
سنا ہے زخمی تیغ نگہ کا دم نکلتا ہے
ترا ارمان لے اے قاتل عالم نکلتا ہے
نہ آنکھوں میں مروت ہے نہ جائے رحم ہے دل میں
جہاں میں بے وفا معشوق تم سا کم نکلتا ہے
کہا عاشق سے واقف ہو تو فرمایا نہیں واقف
مگر ہاں اس طرف سے ایک نامحرم نکلتا ہے
محبت اٹھ گئی سارے زمانے سے مگر اب تک
ہمارے دوستوں میں باوفا اک غم نکلتا ہے
پتا قاصد یہ رکھنا یاد اس قاتل کے کوچے سے
کوئی نالاں کوئی بسمل کوئی بے دم نکلتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |