سنگم (افسر میرٹھی)
پریاگ پہ بچھڑی ہوئی بہنیں جو ملی ہیں
پانی کی زمیں پر بھی تو کلیاں سی کھلی ہیں
کچھ گنگا کا رکنا
کچھ جمنا کا جھکنا
پھر دونوں کا ملنا
وہ پھول سے کھلنا
کس شوق سے اٹھلاتی ہوئی ساتھ چلی ہیں
یہ عشق و محبت کے نظارے ازلی ہیں
کہتے ہیں کہ جنت سے بھی آئی ہے بہن ایک
گو تینوں کا ہی اصل میں گھر ایک وطن ہے
گھر جب سے چھٹا تھا
دل سرد ہوا تھا
وہ کوہ سے گرنا
وہ دشت میں پھرنا
راتوں کو وہ سنسان بیابان میں چلنا
سہمے ہوئے تاروں کا وہ سینے میں مچلنا
تھا وہ سفر دشت میں میدان میں بن میں
خاموش پہاڑوں میں گلستاں میں چمن میں
جنگل سے نکلنا
رکتے ہوئے چلنا
کچھ بڑھ کے پلٹنا
ڈر ڈر کے سمٹنا
مر مر کے اکیلے یہ گزارا ہے زمانہ
جیسے کوئی دنیا میں نہ ہو اپنا یگانہ
خالی کبھی جاتی نہیں بے لفظ صدائیں
آخر کو اثر کر گئیں خاموش دعائیں
جاگا ہے مقدر
پریاگ پہ آ کر
اب غم نہ سہیں گے
تنہا نہ رہیں گے
پریاگ پہ بہنوں کو ملایا ہے خدا نے
مدت میں یہ دن آج دکھایا ہے خدا نے
کیا جوش محبت سے بغل گیر ہوئی ہیں
وارفتگئ شوق کی تصویر ہوئی ہیں
اللہ رے محبت
سرمایۂ راحت
یہ کس کو خبر تھی
دل ملتے ہیں یوں بھی
ہوں گی نہ جدا حشر تک اب ایسے ملی ہیں
خوش بہنیں ہیں یا پانی پہ کلیاں سی کھلی ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |