سنے راتوں کوں گر جنگل میں میرے غم کی واویلا
سنے راتوں کوں گر جنگل میں میرے غم کی واویلا
تو مجنوں قبر سیں اٹھ کر پکارے آہ یا لیلیٰ
ہمارا خون ناحق نیں ہوا ضائع ارے قاتل
زمیں سے گل ہو نکلا آسماں پر ہو شفق پھیلا
ہرن سب ہیں براتی اور دوانہ بن کا دولہا ہے
بہ ہر خلعت کوں عریانی کی پھرتا ہے بنا چھیلا
شراب صاف دے تا صاف ہو ساقی غبار غم
ہمارا دل نپٹ گرد کدورت سے ہے اب میلا
سراجؔ اس شعلہ رو کی تنگ پوشی کوں کہاں پہنچے
کہ ہے جامہ بدن میں شمع کے فانوس کا ڈھیلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |