سوئے کلکتہ جو ہم بہ دل دیوانہ چلے
سوئے کلکتہ جو ہم بہ دل دیوانہ چلے
گنگناتے ہوئے اک شوخ کا افسانہ چلے
شہر سلمیٰ ہے سر راہ گھٹائیں ہم راہ
ساقیا آج تو دور مے و پیمانہ چلے
اس طرح ریل کے ہم راہ رواں ہے بادل
ساتھ جیسے کوئی اڑتا ہوا مے خانہ چلے
شہر جاناں میں اترنے کی تھی ہم پر قدغن
یوں چلے جیسے کوئی شہر سے بیگانہ چلے
گرچہ تنہا تھے مگر ان کے تصور کے نثار
اپنے ہمراہ لیے ایک پری خانہ چلے
کھیل امید کے دیکھو کہ نہ کی ان کو خبر
پھر بھی ہم منتظر جلوۂ جانانہ چلے
ان کا پیغام نہ لائے ہوں یہ رنگیں بادل
ورنہ کیوں ساتھ مرے بے خود و مستانہ چلے
گھر سے بہ عشرت شاہانہ ہم آئے تھے مگر
ان کے کوچے سے چلے جب تو فقیرانہ چلے
بادلو خدمت سلمیٰ میں یہ کہہ دو جا کر
کہ ترے شہر میں ہم آ کے غریبانہ چلے
حسرت و شوق کے عالم میں چلے یوں اخترؔ
مسکراتا ہوا جیسے کوئی دیوانہ چلے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |