سوائے عشق بتاں اور مجھ کو کام نہیں
سوائے عشق بتاں اور مجھ کو کام نہیں
انہی کا ذکر ہے لب پر خدا کا نام نہیں
تلاش یار میں آوارہ وار پھرتا ہوں
مثال چرخ مجھے ایک دم قیام نہیں
رقیب کے لئے بھر بھر کے جام آتے ہیں
ہمارے واسطے پینے کا انتظام نہیں
سلوک غیر سے جو ہے وہ ہم سے ہوتا ہے
تمہاری بزم میں تفریق خاص و عام نہیں
حسین جتنے ہیں سب مال و زر کے بندے ہیں
یہاں تو عشق ہے لیکن گرہ میں دام نہیں
کسی سے روز تصور میں بات ہوتی ہے
قسم خدا کی مجھے حاجت پیام نہیں
نہ کر وصال میں ان سے گلہ دل ناداں
خوشی کا وقت ہے رونے کا یہ مقام نہیں
ہر ایک شعر میں ہجراں بتاں کا رونا ہے
ترے کلام میں ہاجرؔ خوشی کا نام نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |