سودائے گیسوئے سیۂ یار ہو گیا
سودائے گیسوئے سیۂ یار ہو گیا
آزاد تھا جو دل سو گرفتار ہو گیا
مجلس میں جس طرف تری ترچھی نظر پڑی
اک تیر تھا کہ توڑ کے صف پار ہو گیا
سچ ہے یہ حرص کرتی ہے انسان کو خراب
غم کھایا اس قدر کہ میں بیمار ہو گیا
دل کو قرار ہے نہ تو جاں کو قرار ہے
یہ عشق ہے الٰہی کہ آزار ہو گیا
انبائے جنس سے جو اٹھائیں اذیتیں
صورت سے آدمی کی میں بیزار ہو گیا
سیر چمن کو یار جو آیا تو دیکھنا
آنکھوں میں عندلیب کے گل خار ہو گیا
احقرؔ گلہ رہا نہ عداوت کا غیر کی
جب یار قتل کرنے پہ تیار ہو گیا
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |