سودا ہے جو دل دے کے خریدار سے الجھے

سودا ہے جو دل دے کے خریدار سے الجھے
by داغ دہلوی

سودا ہے جو دل دے کے خریدار سے الجھے
سلجھے ہوئے ہم سے نہ کبھی یار سے الجھے

ہونے نہ دیا رشک نے اظہار تمنا
ہر بات میں ہم اپنی ہی گفتار سے الجھے

الجھاؤ سے الجھاؤ ہیں اس عشق میں یا رب
دلدار سے اٹکے تھے کہ اغیار سے الجھے

کیا سیر ہو شانے سے لڑے گر دل صد چاک
ایک ایک گرفتار گرفتار سے الجھے

اٹکے تو کسی چشم فسوں ساز سے اٹکے
الجھے تو کسی طرۂ طرار سے الجھے

چوری سے بھی پہنچے نہ ترے گھر میں کبھی ہم
برسوں یوں ہی خار سر دیوار سے الجھے

کھلتے نہیں تم داغؔ الجھتی ہے طبیعت
اچھے کسی عیار سے مکار سے الجھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse