سوزش شعلۂ فرقت سے فنا ہو جانا
سوزش شعلۂ فرقت سے فنا ہو جانا
مرض غم کے لیے ہے یہ دوا ہو جانا
سہل ہے ناوک مژگاں کا قضا ہو جانا
غمزۂ چشم کا آساں ہے جفا ہو جانا
آرزو تجھ سے یہ کہتا ہوں شب فرقت میں
خود دعا ہونا کبھی دست دعا ہو جانا
صورت خاک گلستاں میں نہ رہنا اے دل
مثل بو دامن گلشن سے جدا ہو جانا
داغ بن کر تو رہا دامن قاتل پہ مگر
بوئے خوں بہر خدا بوئے وفا ہو جانا
بے قراری سے تو راحت ہو کوئی دم حاصل
جسم سے جان حزیں جلد جدا ہو جانا
شب غم دل سے جمیلہؔ نے یہی رو کے کہا
مل کے مٹی میں تو نقش کف پا ہو جانا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |