سوز دل کا ذکر اپنے منہ پہ جب لاتے ہیں ہم
سوز دل کا ذکر اپنے منہ پہ جب لاتے ہیں ہم
شمع ساں اپنی زباں سے آپ جل جاتے ہیں ہم
دم بدم اس شوخ کے آزردہ ہو جانے سے آہ
جب نہیں کچھ اپنا بس چلتا تو گھبراتے ہیں ہم
بیٹھنے کو تو نہیں آئے ہیں یاں اے باغباں
کیوں خفا ہوتا ہے اتنا ہم سے تو جاتے ہیں ہم
دل سے ہم چھٹ جائیں یا دل ہم سے چھٹ جاوے کہیں
اس کے الجھیڑے سے اب تو سخت اکتاتے ہیں ہم
دل خدا جانے کدھر گم ہو گیا اے دوستاں
ڈھونڈھتے پھرتے ہیں کب سے اور نہیں پاتے ہیں ہم
دونوں دیوانے ہیں کیا سمجھیں گے آپس میں عبث
ہم کو سمجھاتا ہے دل اور دل کو سمجھاتے ہیں ہم
یاد میں اس گلبدن کی آج کل تو اے حسنؔ
باغ میں پھر پھر کے اپنے دل کو بہلاتے ہیں ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |