سو حسرتیں تو آئیں گیا ایک دل گیا

سو حسرتیں تو آئیں گیا ایک دل گیا
by داغ دہلوی

سو حسرتیں تو آئیں گیا ایک دل گیا
ملنا تھا جو مجھے مری قسمت کا مل گیا

اس نے لیا جو آئنے میں بوسہ اپنا آپ
اللہ رے نازکی لب گلفام چھل گیا

اللہ رے جامہ زیب تری جامہ زیبیاں
پہنا جو تو نے رنگ وہی رنگ کھل گیا

جنت اسی کا نام اگر ہے تو بس سلام
محفل میں تیری جو کوئی آیا خجل گیا

میں نے تو اپنے واسطے کی تھی دعائے وصل
الٹا اثر ہوا وہ رقیبوں سے مل گیا

ہستی میں ہیں عدم کے مزے عاشقوں کو داغؔ
قالب میں جان آتے ہی پہلو سے دل گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse