سو داغ تمناؤں کے ہم کھائے ہوئے ہیں
سو داغ تمناؤں کے ہم کھائے ہوئے ہیں
گل جتنے ہیں اس باغ میں مرجھائے ہوئے ہیں
شرمندہ ہوں میں اپنی دعاؤں کے اثر سے
وہ آج پریشان ہیں گھبرائے ہوئے ہیں
خودداریٔ گیسو کا ہے اس رخ پہ یہ عالم
جھکنا جو پڑا ان کو تو بل کھائے ہوئے ہیں
اب تم بھی ذرا حسن جہاں سوز کو روکو
ہم تو دل بے تاب کو سمجھائے ہوئے ہیں
اے دست کرم پھینک دے کونین کو اس میں
دامن کو ترے سامنے پھیلائے ہوئے ہیں
پھوڑیں گے جبیں اب ترے در پر ترے محتاج
برباد ہیں تقدیر کے ٹھکرائے ہوئے ہیں
آتا ہے بڑھا بحر کرم جوش میں کیفیؔ
ہم اپنے گناہوں پہ جو شرمائے ہوئے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |