سہارا
اوس کی بوندوں میں نمکینی نہیں
پھول گر چاہے کہ اپنی رات کے انجام کو
ایک ہی لمحے میں یکسر جان لے
اس کو لازم ہے ہوا کے سرد جھونکے سے کہے
جاؤ اس کے آنسوؤں کو چوم لو
آنسوؤں کو چوم کر محسوس یہ ہونے لگا
ایک آنسو ایک بوند
ایک پل میں ایک بحر نیلگوں
بن کے چھا جاتا ہے تنہا ناؤ پر
کیا ہوا گر اوس کی بوندوں میں نمکینی نہیں
اوس کی بوندوں میں نمکینی اگر ہوتی تو کیا
پھول اس میں تیرتے ہی تیرتے
اپنی منزل تک پہنچ سکتا نہ تھا اک ناؤ بن سکتا نہ تھا
پھول کیا ہے تو کہ میں
پھول میں ہوں تو نہیں
تو تو بحر نیلگوں میں ایک تنہا ناؤ ہے
بہتی جاتی ہے ذرا رکتی نہیں
تجھ کو یہ معلوم کب ہے اوس کی بوندوں میں نمکینی نہیں
تو فقط باتوں کے بل پر اپنی راتوں کی رسیلی چھاؤں میں
یہ سمجھتی ہے کہ ہر لمحہ اچانک پھیل کر
شش جہت پر دل دھڑکتے ہی میں یوں چھانے لگا
جیسے اک ٹھہراؤ فرقت کی اندھیری رات میں
درد کے ہم دوش لذت کو بھی اکساتا رہے
لے پیالہ تھام لے
اس میں باقی ہے ابھی زہر غم
جس کو پی کر میں بھی اپنی زندگی سے بھاگتا پھرتا رہا
گفتگو سے فائدہ کچھ بھی نہیں لیکن مجھے
ہر اشارا دام ہے الفاظ کا
جس میں طائر پھڑ پھڑاتے چیختے
چیختے ہی چیختے خاموش ہو جاتے ہوئے
جان لیتے ہیں کہ اب وہ رات ہی درماں بنے گی درد کے انبار کا
جس کے بکھرے دامن صد چاک میں
پھول کی بھیگی ہوئی پتی پہ بوندیں اوس کی
ساتھ لاتی ہیں گداز روح کی ہلکی ملاحت کو جسے
چکھ کے کہتی ہے زباں کیوں اب کہو
اوس کی بوندوں میں نمکینی نہیں
دیکھ دور
ایک تنہا ناؤ بحر نیلگوں پہ رفتہ رفتہ بڑھتے بڑھتے آ رہی ہے پاس دیکھ
دور کی چیزیں بھی یوں
باتوں باتوں میں قریب آ جائیں گی کیا تھی خبر
دیکھ تو
رشتۂ عہد تخیل بند تھا
کھلنے لگا
رفتہ رفتہ اک نئی صورت نظر آنے لگی
اک نئی صورت مگر کچھ نقش تو مانوس ہیں
اور ہر لمحے سے ہر آنسو سے قصر نیلگوں استادہ ہے
دور اس کی چھت میں دو فانوس ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |