سہارا دے نہیں سکتے شکستہ پاؤں کو
سہارا دے نہیں سکتے شکستہ پاؤں کو
ہٹاؤ راہ محبت سے رہنماؤں کو
بنا رہا ہوں حسیں اور مہ لقاؤں کو
سجا رہا ہوں میں آفاق کی فضاؤں کو
نظر نظر سے ملاتا ہوں مسکراتا ہوں
جنوں کی شان دکھاتا ہوں دل رباؤں کو
قدم قدم پہ نئے انقلاب رقصاں ہیں
دعائیں دیتے ہیں ہم آپ کی اداؤں کو
ملا جو دامن ساحل تو ایسی موج آئی
سفینے سونپ دئیے ہم نے ناخداؤں کو
نگاہ پھیرنے والوں سے پوچھتا ہوں میں
تم آزماؤ گے کب تک مری وفاؤں کو
ابھی تو دشت و دمن میں بہار آئی ہے
ابھی چمن میں کھلانے ہیں گل ہواؤں کو
چلے ہیں جانب دار و رسن خراباتی
گنہ کا رنگ دکھانا ہے پارساؤں کو
ہر ایک لمحۂ نو کا اب احترام کرو
نیا پیام دو اخترؔ نئی فضاؤں کو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |