سیر زندگی

سیر زندگی
by محمد حسین آزاد
319399سیر زندگیمحمد حسین آزاد

ایک حکیم کا قول ہے کہ زندگی ایک میلہ ہے اور اس عالم میں جو رنگا رنگ کی حالتیں ہم پر گزرتی ہیں، یہی اس کے تماشے ہیں۔ لڑکپن کے عالم کو پیچھے چھوڑ کر آ گے بڑھے، نوجوان ہوئے اور پختہ سال انسان ہوئے اس سے بڑھ کر بڑھاپا دیکھا اور حق پوچھو تو تمام عمر انسانی کا عطر وہی ہے۔

بہت سے گرم و سرد زمانے کے دیکھتا ہے، نشیب و فراز عالم کے طے کرتا ہے۔ بچپن سے لے کر ساری جوانی کے تجربوں میں گزارتا ہے۔ جب گھس پس کر بڈھا ہو لیتا ہے تو ذرا آدمی بنتا ہے اور اس قاہوتا ہے کہ جو سنے یا دیکھے اسے کچھ سمجھ بھی سکے۔

جب اس فقرے پر غور کیا اور آدمی کی ادلتی بدلتی حالت کا تصور کیا تو مجھے انواع و اقسام کے خیال گزرے۔ اول تو وقت بوقت اس کی ضرورتوں اور حاجتوں کا بدلنا ہے کہ ہر دم ادنی ادنی چیز کا محتاج ہے۔ پھر اس کی طبیعت کا رنگ پلٹنا ہے کہ ابھی ایک چیز کا طلب گار ہوتا ہے، ابھی اس سے بیزار ہوتا ہے اور جو اس کے برخلاف ہے اس کا عاشق زار ہوتا ہے۔

پھر غلفت ہے کہ وقت کے دریا میں تیراتی پھرتی ہے۔ لطف یہ ہے کہ سب خرابیاں دیکھتا ہے اور چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ میرا دل ان خیالات میں غرق تھا کہ دفعتاً درد و مصیبت کی فریاد، خوشی کے ولولے، ڈر کی چیخیں ہواؤں کے زور، پانی کے شور ایسے اٹھے کہ میں بے اختیار اچھل پڑا۔ (1)

اول تو دل بہت حیران ہوا۔ بعد تھوڑی دیر کے حواس ٹھکانے ہوئے تو آس پاس کچھ لوگ نظر آئے۔ پوچھنے لگا کہ ہم کس عالم میں ہیں اور کہاں جاتے ہیں اور اس فعل کا کیا سبب ہے؟

ایک شخص برابر سے بولا کہ صاحب جاتے کہا ں ہو دریائے حیات میں تیر رہے ہو، پہلے تو لڑکپن کی نہر تھی کہ جس میں کچھ کشتیوں (2) کی کمزوری سے کچھ ملاحوں کی غفلت سے، کچھ ان کی بے وقوفی سے لاکھوں بھائی بند غارت ہو گئے۔ وہ نہر تو ہم اتر آئے ہیں، اب مانجھدار سمندر ہے اور ہم ہیں۔ کبھی طوفان ہے کبھی گرداب ہے، کبھی موجوں کے تھپیڑے کھا رہے ہیں۔ یہاں ملاحوں کی ہوشیاری اور چالاکی کے سوا کوئی صورت بچاؤ کی نہیں۔ ملاح بھی اس لاکھوں کے انبوہ میں سے انتخاب کئے ہیں، جو رستہ بتانے اور پار اتار دیے کے دعوے باندھے بیٹھے تھے مگر حقیقت میں نہ یہاں ناخدا کی پیش کی جاتی ہے نہ ملاح کی۔ فقط خدا کی آس ہے اور بس،

جہاز عمر رواں پر سوار بیٹھے ہیں
سوار خاک ہیں بے اختیار بیٹھے ہیں

یہ سن کر میں نے ادھر ادھر غور سے دیکھنا شروع کیا اور دل نے کہا کہ پلے ب ذرا نظر اٹھا کر تو دیکھ لو۔ دیکھا تو فی الحقیقت ایک نہر خوشنما گلزار کے بیچ میں لہراتی چلی جاتی ہے۔ ہمراہی میرے دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ اس کی لہروں میں ظاہرانہ کچھ زور تھا نہ شور تھا مگر جو شخص ذرا ہاتھ ڈالتا تھا وہ اسے بلبلے کی طرح بہا لے جاتی تھی ان گلزاروں کا کچھ حال دیکھنا چاہو تو بالکل اندھیرا تھا اور کوئی نہ کہہ سکتا تھا کہ باغ کہاں سے شروع (1) ہوتا ہے۔ یعنی جس نے آنکھ کھولی تھی اپنے تئیں باغ ہی میں دیکھا تھا دائیں بائیں اور سامنے بھی پانی ہی پانی تھا کہ اپنی لہر بھر میں بہتا چلا جاتا تھا اور دھند اتنی چھائی ہوئی تھی کہ تیز سے تیز نظر بھی کام نہ کرتی تھی (2)۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس دریا میں بڑے بڑے پتھروں کی چٹانیں ہیں، اور جا بجا گرداب پڑتے ہیں بہت سے لوگ ایسے تھے (1) کہ اپنی اپنی کشتیوں میں باد مراد کے مزے لیتے چلے جاتے تھے اور جو بچارے پیچھے رہ گئے تھے ان پر قہقہے اڑاتے جاتے تھے۔ مگر یہ بھی ہنستے ہنستے ان ہی گردابوں میں ڈوبتے جاتے تھے۔ دلوں کا اضطراب اور آنکھوں کا اندھیرا یہ غضب تھا کہ چالاک سے چالاک آدمی بھی مشکل سے سنبھل سکتا تھا، ان ہی میں ایسے لوگ بھی تھے کہ (2) ناواقفیت و نادانی کے سبب سے اپنے ساتھیوں کو گردابوں میں ڈال دیتے تھے اور موجوں کے تھپیڑے انھیں چٹانوں پر ٹکرا کر مار ڈالتے تھے . پانی برابر لہریں مارتا چلا جاتا تھا اور کشتی کو اس کی ٹکر پر چڑھا لانے کا تو ذکر کیا ہے اتنی مجال نہ تھی کہ کوئی پہلو کاٹ کر بھی دھارے کے سامنے سے چڑھ آئے یا کاش کہ جہاں سے چلا تھا پھر وہیں (3) آجائے۔ سب اپنی اپنی کشتیوں کو برابر روک تھام سے سنبھالے چلے جاتے تھے، اور لطف یہ کہ ہر شخص کے دل میں یہی خیال تھا کہ مجھے کچھ خطرہ نہیں۔ اگر ہے تو اور ہم سفروں کو ہے اوروں کے انجام دیکھ رہے تھے اور اپنی بد انجامی نہ معلوم ہوتی تھی، خود اسی مصیبت میں مبتلا تھے اور اپنا خیال نہ کرتے تھے۔ جب موجوں کا زور ہوتا تھا تو قسمت اور بد اعمالی جو پر سے پر ملائے برابر عالم ہوا میں اڑاتی چلی جاتی تھیں، وہ لوگوں کو بہلا لیتی تھیں۔ ہر شخص (3) خوش ہوتا تھا، اور دل میں اپنے تئیں مبارکباد دیتا تھا کہ الحمدللہ میری کشتی کو کچھ خطر نہیں ہے جو گرداب اوروں کو نگل گیا، میں اس سے بچ جاؤں گا، اور جن چٹانوں نے اور کشتیوں کو ٹکرا کر ڈبودیا میں انھیں بھی بے لاگ پھاند جاؤں گا۔ غفلت نے ایسا پردہ آنکھوں پر ڈالا تھا کہ ساتھ کے جہازوں کی تباہی بھی دیکھتے تھے مگر اسی راستے چلے جاتے تھے۔ اس بے پروا ہی کا یہ حال تھا کہ دم بھر اور طرف متوجہ ہوتے تھے تو چپو بھی ہاتھ سے رکھ کر بھول جاتے تھے، پھر ناچار ہو کر اپنے تئیں قسمت پر چھوڑ دیتے تھے۔

یہ سستی اور بے پرواہی ان کی کچھ اس لیے نہ تھی کہ ایسی زندگی سے سیر ہو گئے تھے، کیوں کہ جب ڈوبنے لگتے تھے تو سب چلاتے تھے۔ داد بیداد کرتے تھے اور اپنے اپنے دوستوں کو چیخیں مار کر پکارتے تھے برائے خدا کوئی آؤ اور ہمیں سنبھالو، اور اکثر اخیر وقت میں لوگوں کو نصیحتیں بھی کرتے تھے کہ ہم تو اپنی حماقتوں کی بدولت ان حالتوں پہنچے، تم بچے رہنا۔ چنانچہ ان کی اس ہمدردی اور محبت پرستی پر بہت سی تعریفیں بھی ہوتی تھیں، مگر ذراسی دیر میں پھر بھول جاتے تھے، نہ وہ آپ سمجھتے تھے نہ ان نصحیت پر کوئی عمل کرتا تھا۔ ادھر ادھر جزیروں کے کناروں پر کشتیاں اور جہاز ٹوٹے پھوٹے پڑے تھے، بہت سے مسافروں (2) کی ہڈیاں پڑی تھیں۔ بہتیرے نیم جان بہتیرے ایسی بیکسی اور تکلیف کی حالتوں میں تڑپتے تھے کہ دیکھا نہ جاتا تھا۔ ایک دوسرے کو ان کی مصیبت دکھا کر عبرت دلاتا تھا۔ مگر اپنے دل پر ذرا اثر نہ لاتا تھا۔ جس کشتی پر (2) ہم سوار تھے حق یہ کہ اس کے جوڑ بند بھی دریائے حیات کی موجوں کی صدمے اٹھانے کے قابل نہ تھے بلکہ رستے ہی میں ٹوٹتے نظر آتے تھے اور سب ساتھیوں کو یقین تھا کہ کیسی ہی پھرتی کریں یا زور لگائیں، ڈوبنے سے بچتے نہیں۔

جب ان آفتوں کا باہر چرچا ہوا تو جو جو مست غفلت زندگی کے نشہ سے سرخوش بیٹھے تھے۔ وہ بھی غمگین ہو گئے۔ اچھے اچھے دلیروں کے دل ڈر گئے اور بز دلے نامردوں کو زندگی عذاب موت ہو گئی بلکہ رنج و غم کے بعد جن راحتوں کی امید ہوتی ہے، اس سے بالکل مایوس ہو گئے۔ مگر لطف یہ ہے کہ جن لوگوں کو اس آفت میں زیادہ خطرہ تھا (1) وہی زیادہ تر بے پروا تھے بلکہ سب کا جی یہی چاہتا تھا کہ کسی طرح اس خطرہ کا خیال دور ہی دور رہے، اور جو جانتے تھے کہ آگے ایسی مصیبتیں آئینگی، جو اٹھائی نہ جائیں گی، وہ سامنے نگاہ بھر کے نہ دیکھتے تھے اس وقت کے لے کچھ نہ کچھ مشغلے نکال لیتے تھے۔ امید تو ہمیشہ اس رستے میں ساتھ ہی رہتی تھی۔ اس سے ہنس کھیل کر دل بہلاتے (2) رہتے تھے۔

جن لوگوں کی امید سے بہت راہ تھی ان سے اس نے رفاقت کے بڑے بڑے وعدے کر رکھے تھے، مگر اس میں اتنی سکت بھی نہ تھی۔ جس کے سہارے سے بھاگ کر تو بچ جاتے۔ فقط اتنا وعدہ تھا کہ اوروں سے کچھ پیچھے ڈوبوگے اور یہ بھولے بھالے احمق اتنے ہی وعدے پر راضی تھے۔ درحقیقت امید کی باتیں ان سے مسخرا پن کے طور پر تھیں کیوں کہ جتنی ان کی کشتیاں پرانی ہوتی جاتی تھیں اتنی ہی بے خبری کے عہد نامے تازے کرتی تھی اور تعجب یہ ہے کہ جنھیں ڈوبنے کا یقین تھا وہی کاروبار کے لیے زیادہ کمر کستے تھے۔

دریائے زندگی میں ایک بہت خوشنما جزیرہ نظر آیا۔ اس کے کنارے پر دریا سے لگا ہوا ایک بلند منارہ تھا، اس پر سونے کے حرفوں سے لکھا تھا۔

’’بداعتدالیوں کا گلزار۔‘‘ جہاں تک جزیرہ کی حد تھی وہاں تک پہاڑ کی بڑی بڑی چٹانیں بلند تھیں۔ اسی واسطے ایسے ہیبت ناک گرداب پڑتے تھے جہاں سے کشتی کا نکلنا ممکن نہ تھا۔ یہ چٹانیں پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں اور جتنی کھلی تھیں نہایت سرسبز اور خوشنما تھیں۔

جوانان مرغزار یعنی ہرے بھرے درخت ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے جھوم رہے تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں، وہیں آرام اپنی پلنگڑی بچھائے لیٹا تھا، اور خوشی میٹھے میٹھے سروں میں پڑی ایک ترانہ لہرا رہی تھی۔ یہی مقام رہ گزر عام کا تھا۔ اس لئے جو لوگ ادھر سے گزرتے تھے یہاں کی سرسبزی ان کی آنکھوں میں طراوت دیتی تھی۔ ادراک کا ناخدا داہنے ہاتھ پر دوربین لگائے کھڑا تھا کہ مسافروں کو اسی سکڑے رستے سے نکال لے جاتا تھا۔ مگر خرابی یہ تھی کہ وہ کشتی (1) کھینے کے لئے ان سے ڈانڈا مانگتا تھا کہ صحیح سلامت یہاں سے نکال دے۔ یہ اس سبز باغ پر ایسے محو ہو رہے تھے کہ جواب (2) بھی نہ دیتے تھے۔ خواہ وہ خفا ہو کر کہے خواہ منتوں سے مانگے۔ تھوڑے ہی ہوں گے جو اس کا کہنا بھی مانتے ہوں گے اور دیتے تھے تو اس شرط پر دیتے تھے کہ ان سبزہ زاروں کے پاس سے ہو کر نکلنا کہ ذرا دیکھ کر ہی دل خوش کر لیں۔ اور عہدلے لو کہ پھر رستے بھر ہم کہیں نہ اٹکیں گے نہ سمجھتے تھے کہ برتنا تو درکنار ان بلاؤں کے پاس کو نکلنا بھی غضب ہے چھوا اور موا۔

میں نے دیکھا کہ آخر ادراک چابک دست ان کے تقاضوں اور منتوں سے دق ہو گیا اور جزیرۂ مذکور کی طرف لے چلا۔ اس جزیرہ نے کشتی کو اس طرح کھینچا جیسے مقناطیس (1)سوئی کھینچے جانے والے بھی گئے تو سہی مگر بہت پچتا ئے اور جتنا زور تھا سب لگا دیا لیکن پانی کے آگے ایک نہ چلا۔ غم غلط مسافر اس عالم میں بھی ناچ کود کر خوشیاں مناتے رہے اور مفت جانیں گنوا بیٹھے۔ ہاں جن لوگوں (2)پر ادراک چابک دست کی چالاکی کی تدبیر کار گر ہوئی وہ بچے مگر بڑے دکھ اٹھا کر بچے اور نکلے تو جس طرح پہلے چلے جاتے تھے اسی طرح موجوں کے تھپیڑوں میں پڑ گئے پانی کے طلاطم کا یہ عالم تھا کہ کشتی چل نہ سکتی تھی، اور یہ بھی باد مخالف اور طغیانی کے ڈر کے مارے ڈرتے ڈرتے کشتی کو لئے جاتے تھے۔ آخر ادھر ان کے زور گھٹتے گئے ادھر کشتی حیات کے جوڑ بند خراب ہوتے گئے۔ خلاصہ یہ کہ رفتہ رفتہ سب ڈوب گئے مگر جو ڈوبتا تھا اپنی کوتاہ اندیشی جو پچھتاتا تھا اور اوروں کو نصیحت کرتا جاتا تھا کہ،

من نہ کردم شما حذر بکنید

خبردار کوئی جزیرہ بے اعتدالی کے سامنے نہ آنا۔

خدا کی قدرت کو جو ایسی پھوٹی کشتیوں کی مرمت کرتے تھے۔ ان کے کاریگر بھی وہیں موجود (1) تھے۔ بہت لوگوں کو اپنے کاریگروں پر بڑا بھروسہ تھا اور بعض کشتیاں بھی ایسی تھیں کہ انہیں تھوڑا ہی صدمہ پہنچا تھا۔ مگر معلوم ہوا کہ جنھوں نے تھوڑا صدمہ اٹھایا تھا وہ بھی کچھ بہت نہ جیئے۔ روز بروز مرض بڑھتا گیا۔ آخر ڈوب ہی گئے۔ بلکہ تعجب یہ ہے کہ بعض ضرب رسیدہ ایسے تھے کہ کاریگروں نے خود ان کی مدد میں پہلو بچایا۔ (2) مگر بہتیرے کاریگر خود ضرب رسیدوں سے پہلے ڈوب گئے کہ وہ خود اپنی آفتوں میں مبتلا تھے۔

غرض سیر زندگی میں چالاک لوگوں نے بھی اگر پایا تو اتنا ہی پایا کہ یہ پیچھے ڈوبے، وہ پہلے ڈوبے۔ بہتیرے مسافر ایسے بھی تھے کہ لڑکپن سے جن ہمراہیوں کے ساتھ ساتھ چلے آتے تھے، انھیں غوطے کھاتے دیکھتے جاتے تھے اور آگے بڑھتے جاتے تھے۔ یعنی باد مخالف برابر غرق کیے جاتی تھی، نہ ان بے چاروں کو محنت تدبیر کرنی پڑتی تھی نہ غم انتظار اٹھانا پڑتا تھا۔ جو لوگ خوشی کی ٹکر کھا کر بچ نکلے تھے وہ بھی آہستہ آہستہ ضعیف ہی ہوتے گئے۔ اگرچہ ہاتھ پاؤں مار مار کر پانی سے بہت لڑے۔ مگر جو اوروں پر پہلے گزری تھی وہ ان پر پیچھے گزری۔ آخر معلوم ہوا تو یہی ہوا کہ امید کو بھی کنارہ کامیابی تک پہنچنا مشکل ہے۔ یہ حالت دیکھ میرا دل ایسا زندگی سے بیزار ہوا کہ آنکھیں بند کر کے اس دریا میں کود پڑوں۔ اتنے میں دیکھتا ہوں کہ ایک شخص نورانی صورت، سبز لباس پہنے سامنے کھڑا ہے اور اپنے عصا سے اشارہ کر کے پاس بلاتا ہے۔ میں نزدیک گیا تو اس نے اپنا ہاتھ میرے منھ پر پھیرا اور عصا اٹھا کر سامنے اشارہ کیا خدا جانے دوربیں الہی سے میری آنکھیں روشن کر دیں۔ یا کہر جو دھواں دھار ہو رہی تھی اسے اپنی برکت سے اڑا دیا۔ دیکھوں تو سبحان اللہ صبح سعادت کا وقت ہی چمن کے لہلہے، مرغان سحر کے چہچہے، پھولوں پر شبنم صبا اور نسیم کم کم۔ جزیرے کے جزیرے میووں سے جھومتے اور پھولوں سے لہلہاتے ہیں۔ ان کے بیچ میں سمندر کا پانی جگمگ جاگمگ لہریں مار رہا ہے۔ بڑے بڑے امرا شرفا خلعت ہائے فاخرہ اور زرق برق کے لباس پہنے پھولوں کے طرے سر پر ہار گلے میں ڈالے ادھر ادھر درختوں میں شعر پڑھتے پھرتے ہیں۔ کچھ فواروں کے نیچے حوض میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں کچھ پھولوں کی کیاریوں میں بے تکلف لوٹتے ہیں اور گانا سن رہے ہیں۔ غرض کہ ہجوم بہار اور رسیلی آوازوں کے ستاروں نے وہ جھمگٹ کر رکھا تھا کہ شور قیامت بھی آئے تو خبر نہ ہو۔ اس عالم کو دیکھ کر میرا ساغر دل خوشی سے چھلک گیا اور بے اختیار یہی جی چاہا کہ اگر باز کے پر ہاتھ آ جائیں تو اڑوں اور اس باغ فرح بخش میں جا پڑوں لیکن اس پیر بزرگ نے کہا کہ وہاں جانے کا کوئی رستہ نہیں۔ الادروازہ موت کہ جس سے تم ڈرتے ہو، دیکھو وہ سر سبز اور رنگین جزیرے جو سامنے نظر آتے ہیں اور سمندر کی قالین پر گل کاری کر رہے ہیں۔ حقیقت میں اس سمندر سے بھی زیادہ پھیلاؤ رکھتے ہیں۔ جہاں تک تمھاری نظر کام کر سکے بلکہ جہاں تک تمھارا خیال دوڑ سکے اس سے بھی آگے تک لا انتہا چلے جاتے ہیں۔ مرنے کے بعد نیک مردوں اور صاحب دلوں کے گھر یہیں ہوں گے جن جن لذتوں کو دل چاہے اور طبیعت کیفیت اٹھائے سب یہاں موجود ہیں۔ ہر جزیرہ باغ جنت کا مکان ہے کہ اپنے اپنے مکین کے لائق شان ہے کیوں آزاد! کیا یہ مقام اس لائق نہیں کہ جان تک بھی ہو تو دے دیجئے اور انھیں لیجئے کیا اس زندگانی کو مصیبت سمجھنا چاہیے جس کی بدولت یہ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں کیا موت سے ڈرنا چاہیئے ؟ کیا ملک عدم کو خوش ہو کر نہ چلنا چاہیئے ؟ جس کی بدولت ایسی ایسی نعمتیں حاصل ہوں۔ نہیں نہیں ہر گز نہیں اور سنتے ہو! نہ سمجھنا کہ انسان جس کے لئے یہ بے زوال سامان ہیں۔ اسے یونہی پیدا کر دیا ہے۔ دنیا مقام امتحان ہے۔ ہم تم یہاں امتحان دینے آئے ہیں۔ امتحان کا نام سنتے ہی چونک پڑا آنکھ کھول کر دیکھا تو کچھ نہ تھا۔

(نیرنگ خیال حصہ اول از محمد حسین آزاد)


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.