سیر عدم (مسافران عدم کے پسماندوں کی سرگزشت)

سیر عدم (مسافران عدم کے پسماندوں کی سرگزشت)
by محمد حسین آزاد
319405سیر عدم (مسافران عدم کے پسماندوں کی سرگزشت)محمد حسین آزاد

جب کوئی نہایت چہیتی چیز ہمارے ہاتھ سے نکل جائے اورمعلوم ہوکہ اب ہاتھ نہ آئے گی توکیا دل بے قرارہوتاہے اور جان صحرائے تصور میں کیسی اس کے پیچھے بھٹکتی پھرتی ہے، مگر جب تھک کر ناچار ہوجاتی ہے تو اداس بے آس ہوکرآتی ہے اور اپنے ٹھکانے پرگرپڑتی ہے۔ عقل وفہم البتہ دلِ غم گین کوسہارا دے سکتے ہیں۔ مگردل ایسا بھولابھالاشخص ہے کہ ذرا نہیں سمجھتا اورجوغذا اس کے جی کوبھاتی ہے اسی کوڈھونڈتا ہے۔ درحقیقت یاد جو دل کی ہمسائی ہے، وہ ہمیشہ غم کو خانہ دل میں بلاتی ہے اور ایام گزشتہ میں جومزے اٹھائے ہیں یا دولت کھوکر عیش اڑائے ہیں ان کی گزری ہوئی بہاروں کے افسانے سناتی ہے۔

کسی کواس دولت وعظمت کا غباراڑتا دکھائی دیتاہے، جن کی سواری گزرگئی۔ کسی کواقربا کی آوازیں اوردوستوں کی باتیں سناتی ہے، جوشہر خموشاں میں پڑے سوتے ہیں۔ کبھی عزیزوں کی صورتوں اوران کی طبیعتوں کی تصویریں دکھاتی ہے، کبھی پیاروں کے پیار اوران کی محبتوں کے افسانے سناتی ہے۔ دل نے حسرت واشتیاق کوبھی اپنے گوشے میں رکھ چھوڑا ہے۔ وہ ان باتوں سے ایسے پھولتے اورپھلتے ہیں کہ دل پھٹ کرٹکڑے ٹکڑے ہوجاتاہے۔ مگرزمانہ اور اس پر وقت کا گزرجانا حالت مذکورہ کوکچھ کچھ کمزورکرتاہے۔ ساتھ اس کے یا توعقل وفہم آکر حسرت واشتیاق کودباتے ہیں یاکوئی اورباہر کا شوق ان سے بھی زبردست آتاہے، وہ ان کازور گھٹاتاہے۔

میں ان خیالات میں پڑاتھا جونیند آگئی۔ دیکھتا ہوں کہ گویاایک چٹیل میدان، صحرائے بیابان سمندرکا کنارہ ہے اور میں وہاں بہت سے لوگوں میں کھڑا ہوں کہ جن کے سوگوار چہرے ان کے دل کے غم واندوہ کی گواہی دیتے ہیں۔ ہمارے سامنے جودریابہہ رہاتھا، اس کا چپ چاپ بہاؤ اور سناٹے کا چڑھاؤ پکاررہاتھا کہ یہاں تھاہ کاپتا نہیں۔ اس دریا کو دیائے اشک کہتے ہیں۔ اسی دریا میں ایک ٹوٹی پھوٹی سی کشتی بھی پڑی ہوئی تھی۔ چنانچہ معلوم ہواکہ بہت سے مسافر پارجانے والوں نے اضطراب اوربے صبری سے اس میں بیٹھ بیٹھ کر اسے خراب کردیاہے۔ مصیبت اس کشتی پرملاحی کرتی تھی۔ چنانچہ وہ اسے فوراً ہمارے پاس لے آئی۔ ہم بھی سوارہونے کوتیار ہی تھے کہ اتنے میں ایک بی بی دیرینہ سال شرم وحیا کا برقعہ اوڑھے علم کی لاٹھی ٹیکتی آئی۔ شفقت مادرانہ سے ایک ایک کا نام لے کرپکارا اور سفر دریا کے خطربیان کرنے لگی تاکہ ہم کسی طرح سے اپنے ارادہ سے بازرہیں۔

اکثرلوگوں نے اسے پہچان لیا کہ بی بی صابرہ خاتون ہیں۔ چنانچہ بعض اشخاص جو رورو کر آنکھوں سے دریا بہارہے تھے، انہوں نے اس کاکہامانا اور پیچھے ہٹ آئے۔ باقی ہم میں سے سوارہوئے۔ بڑھیا بے چاری کی نیک ذاتی اوراس کے دل کی خیرخواہی نے مصیبت زدوں کاساتھ چھوڑنا گوارہ نہ کیا۔ اورکہا کہ اے فرزندو! اگرتم کہو تومیں بھی تمہارے ساتھ سوار ہولوں کہ بھلا اگرسفر میں دقت پڑے تو تمہیں تسکین یا صلاح مناسب تودے سکوں۔

غرض ہم کشتی میں سوارہوکر سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ کشتی چل نکلی اور بادبان کھل گئے۔ مگران بادبانوں میں فقط آہوں کادھواں بھرا تھا کیوں کہ اس ملک کی ہوا یہی تھی۔ رستہ میں اگرچہ بہت سے صدمے اور تہلکے اٹھائے مگر اکثر لوگ ہم میں سے ایسے تھے کہ انہیں اس کی پروا بھی نہ تھی۔ غرض بہزاردقت کشتی کنارہ پر لگی۔ جب پاراترے تو دیکھا کہ ایک جزیرہ ہے۔ مگروہاں ایسی دھند چھائی ہوئی تھی کہ سورج نے اپنی شعاعوں کے ہزاروں تیرمارے، ایک پار نہ جاسکا۔ سامنے ایک بھیانک اندھیرا اس طرح پھیلا ہوا تھا کہ جولوگ ہم میں ذرا دلوں کے نرم تھے وہ تواس مقام کودیکھ کر سخت گھبرائے اور ناچارہوکر صبر کے دامن کو ہاتھ لگایا۔ چنانچہ اس نے ایک طرف کواشارہ کیا اوروہ ہمیں وہیں چھوڑکرادھر اترگئے۔ پھریہ بھی ہم نے سنا کہ اس کے پتے کے بموجب جزیرہ کی سرحد پرپہنچ کر انہیں ایک پایاب مقام ہاتھ آگیا۔

میں ابھی تک انہیں لوگوں کے ساتھ تھا جن کا یہ ارادہ تھا کہ جزیرہ کے بیچوں بیچ ہی میں جاکردم لیں گے۔ چنانچہ وہ سب نہایت آہستگی اور سنجیدگی سے جیسے کوئی جنازہ کولئے جاتا ہے، چلے جاتے تھے۔ انہی ہم سفروں کے حلقہ رفاقت میں میں بھی چلاجاتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم ایک سرسبزبن میں جھاڑیوں کے اندر اندر چلے جاتے ہیں اوران درختوں کوقبرستان پرہی سایہ کرنے کا عشق ہے۔ یہاں کچھ آدمی بھی رہتے معلوم ہوتے تھے مگر وہ بھی نالہ وزاری میں مصروف تھے کہ کسی طرح انہیں تسکین نہ ہوتی تھی۔ کوئی شاخ درخت کوپکڑے کھڑاتھا اورزارزارروتا تھا۔ کوئی اپنے ہاتھ کو مروڑتا تھا اور دل مسوس کررہ جاتاتھا۔ کوئی چھاتی پیٹتا تھا اوربال نوچتا تھا۔ کوئی خاموش تھا، مگر ایسا معلوم ہوتاتھا گویا صدمہ غم سے سکتہ کاعالم ہوگیا ہے۔ ان حالات کودیکھ کر اور آوازوں کو سن کرہمارا غم اوربھی زیادہ ہوا۔ بلکہ ایک رفیق توایسا بے تاب ہوا کہ رستہ پرایک درخت کاٹہنا جھکا ہواتھا، اس نے ارادہ کیا کہ اس میں لٹک کررہ جائے مگرساتھیوں نے تسلی دلاسادے کرسنبھالا۔

اب ہم چلتے چلتے ایسے مقام پر پہنچے کہ زمین آسمان اندھیراوربالکل سنسان مقام تھا۔ جنگل کی سائیں سائیں ٹہنی ٹہنی سے رونے کی آواز، ہوا کا گھٹاؤ، دلوں کے دھڑکنے سے جب ہمارا حال بہت ابترہوا توسب کو یقین ہوگیا کہ اب ہم کنج غم کے پاس آپہنچے۔ وہ ایک گہری گھاٹی کے بیچ میں اندھیراگھپ ایک لمبا غارتھا۔ اسی کے رستوں کے ایچ پیچ میں کچھ کچھ پانی بھرا تھا۔ مگرعجب رنگت پائی تھی کہ نہ کالی نہ لالی۔ وہی نیلا کیچڑپانی تھا کہ نالہ وزاری کی آوازوں پرآہستہ آہستہ سرسراتا تھا اورمارے غم کے دل کولہوپانی کرکے بہاتاتھا۔ غارمذکور کے اندر ایک تہہ خانہ تھا جس کے دروازہ پر آہ کے قلم اورتیرہ بختی کی سیاہی سے لکھا تھا کہ کلبہ احزان کا دہان غم یہی ہے۔

اندراس غارمصیبت کے دیوغم انجام کاوجود بدنمود نظرآتا تھا۔ اس کے رستے میں کوڑا، کانٹے اور سانپ بچھوؤں کے ڈنک بکھرے ہوئے تھے۔ جس تخت پر اس کاجلوس حاکمانہ تھا وہ ایک ٹوٹی پھوٹی پہاڑی کی چٹان تھی۔ تکیوں کی جگہ پیچھے اورپہلوؤں میں کئی کڈھنگے بے ڈھنگے پتھرڈال دیتے تھے۔ سرپر تاج بے کلاہی دھرا تھا۔ جس پر اندھا دھند اندھیرا چھایا ہواتھا اور بارغم کے مارے سرکو بازو پر سہارا دیے ہوئے تھا۔ اس شان سے اپنی غم پرست وغم آئین رعایا پرحکمرانی کرتا تھا اور افسردہ، پژمردہ، چپ چاپ، خاموش، خود اپنے خیال میں گم ہوکرحماقت کی تصویر بن گیاتھا۔

اس کے ایک طرف ملامت وافسردگی کھڑی تھی کہ مارے ضعف کے جھکتے جھکتے نقش زمین ہوگئی تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ غش آگیا۔ دوسری طرف فکر تھاکہ دم بدم کی سرگوشی سے ہزاروں وہم ووسواس کے عذاب میں گرفتار تھا۔ زردی سر پر کھڑی رومال ہلاتی تھی کہ رنگ دھواں ہوکر اڑے جاتے تھے۔ پہلومیں درد بیٹھا تھا کہ جونک کی طرح اندرلہو پیے جاتا تھا۔ تمام غم خانہ میں ویرانی و بربادی چھائی ہوئی تھی اوراس کھنڈر کے چھیدوں میں کئی چراغ سحری بھی ٹمٹمارہے تھے، جن کے نیلے نیلے شعلے اٹھتے تھے اور اپنی ہی نلاہٹ میں بیٹھ کر اٹھ کھڑے ہوتے تھے کہ وہ غم کی حالت اصلی کواوربھی زیادہ خوف سے روشن کرتے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو اکثر لوگ رستہ کے دھکوں کے مارے جاتے ہی گرپڑے۔ چنانچہ جوظالم ستم گارتخت کے آس پاس کھڑے تھے ان کے حوالے ہوگئے۔ بعض خوش نصیب تھے کہ رنج وعذاب سہتے سہتے دروازے کی طرف بھاگے۔

وہاں بی بی صابرہ خاتون ان کے استقبال کے لئے منتظر کھڑی تھیں کیونکہ جب ہم اندر گئے تو اس بے چاری کووہاں چھوڑگئے تھے۔ اس کی رفاقت ایسے وقت میں نہایت غنیمت معلوم ہوئی۔ چنانچہ اس نے ہمیں اس کلبہ احزان کے گردایک چکردیا۔ جب پچھواڑے کی طرف آئے تو ایک بلندی نظر آئی۔ اس پر چڑھ کر دفعتاً معلوم ہوا کہ گویا ہم اس ماتم درہ کے نکاس کی راہ پرآگئے۔ اس بلندی پر اس نے کہا کہ فرزندو! یہاں ذرا ٹھہر کر دم لے لوکہ تمہارے ہوش وحواس ٹھکانے آجائیں۔ چنانچہ فی الحقیقت خمارغم کی سرگرانی سے آنکھیں ہماری جوزمین میں لگی ہوئی تھیں اب ذرا کھلتی معلوم ہوئیں اور ایک قسم کی خوشی محسوس ہوئی، جس نے زبانوں پر تسکین کامزہ دیا۔ یا تو دنیا اندھیر معلوم ہوتی تھی یا ایسا معلوم ہواگویا ہم چھاؤں میں ہیں۔ یہاں ہم نے اپنے ہمراہیوں کے شمار پربھی خیال کیا کہ کتنے لوگ جزیرہ میں داخل تھے۔ چنانچہ ان کی کثرت سے دل کوایک اورقسم کی خوشی ہوئی جس کوتسلی سمجھنا چاہئے۔

ہرچند یہ خوشی کہ اوروں کومبتلائے غم دیکھ کر حاصل ہوئی تھی، معیوب ہے، مگر اس وقت قابل عذرتھی کیوں کہ وقت کو خیال کرو یعنی دیکھو کہ ہم خود کس آفت میں مبتلا تھے۔ اسی واسطے ہم کوفقط ان کے حال زار پررحم نہ آیا۔ ہاں یہ افسوس آیا کہ ہائے ہم سب کیسی بے کسی اوربے چارگی کی حالت میں گرفتار ہیں۔ بلکہ اس میں کچھ انس انسانیت اور رحم ہمدردی بھی شامل تھا۔ اگرچہ دل اس وقت ایسے اندھیرے اورعالم مدہوشی میں تھا کہ اسے کسی بات کا ہوش نہ تھا۔ مگرجوں جوں آگے بڑھے ہوش میں آتا گیا۔ تھوڑی دور چل کرایک دوسرے کو پہچاننے لگے۔ بلکہ ایک ایک کوغم گین دیکھ کر پوچھنے لگا کہ ہم کب ملے تھے اوروہ کیا مصیبتیں تھیں کہ جن کے لئے ہم سب جمع ہوئے تھے۔ ہر ایک نے اپنی سرگزشت بیان کی۔ سارے ماجرے سن کرسب نے ایک دوسرے کی تکلیف کوتولا اور باہم مقابلہ کیا۔ پھرآپس میں ہی رحم کرکے ایک دوسرے کے حال پر بہت افسوس کئے۔

غرض اس طرح غم ناک قافلہ نے رفیقوں کوصبروتسلی کے توشے دے کر تھوڑی سی مصیبت کی راہ قطع کی۔ آخر ان درختوں کاتنگ راستہ ذرا کھلنا شروع ہوا اور ہوابھی کچھ کچھ صاف ہونے لگی۔ تھوڑی دور سے صبح کا سفیدہ غبار کی طرح اڑتا معلوم ہوا۔ وہ ایسا رہ رہ کر ابھرتا تھا جیسے کہیں دوربجلی چمکتی ہو۔ چمکارے اس کے ذرا ماندتھے۔ مگرباوجود اس کے دل کوفرحت بخشتے تھے۔ چنانچہ اس ملک میں اسے دل کابہلاوا کہتے تھے۔ تھوڑی دیرمیں یہ روشنی زیادہ نظرآنے لگی اورپھر زیادہ ترروشن اوردیر تک ٹھہرنے لگی۔ بعدا س کے وہ آئیں جنہوں نے اب تک زمین وآسمان کودھواں دھار کررکھا تھا۔ نسیم وصبا کی سنسناہٹ بن گئیں، اور تمام جزیرہ پرجودیو ہیبت کا ساچھایا ہوا تھا، وہ بھی کم ہونے لگا۔

اب ہم چلتے چلتے اس پایاب مقام پرپہنچے جہاں سے ہمیں پاراترناتھا۔ یہاں دیکھیں تووہ ماتم زدے بھی بیٹھے ہیں جوپہلے ہمارے ساتھ ادھر اترے تھے اورپھر کلبہ احزان کے دروازہ سے گھبراکر بھاگ تھے۔ لیکن یہاں بیٹھے انتظار کررہے تھے کہ جس طرح ساتھ ادھرآئے تھے، ساتھ ہی پھردنیا میں دوبارہ پیدا ہوں جس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ بھی کلبہ احزان کی تکلیفوں میں شریک حال تھے۔ اگرچہ اورطرف پانی بہت گہرا تھا مگر ادھربالکل پایاب تھا۔ جب ہم دریا اترے توتمام دوست آشنا استقبال کوآئے کیوں کہ انہیں ہماری عمردوبارہ کی مبارک باد دینے کے لئے تسلی بلاکرلائی تھی۔ ان میں سے بعض توہمیں اتنے دن تک جدا رہنے کے لئے ملامت کرتے تھے بعض کہتے تھے کہ خیرجوہوا، سوہوا، پھرادھر جانے کا ارادہ نہ کرنا۔

بعض دانش مندوں نے سفر کا حال بھی نہ پوچھا کہ مبادا پھر رنج تازہ جائے۔ مگریہ ہرشخص نے کہاکہ اگرتقدیر سے ایسا سفرپیش آئے تو صبر سے بہتر کوئی رفیق راہ نہیں۔ یہاں صبر نے چاروں طرف سے اپنی تعریفیں اور شکریہ سن سن کرہمیں تسلی کے سپرد کردیا۔ تسلی نے اس پرتبسم کیا۔ تبسم کے ساتھ ہی ادھر سے ادھر آسمان کا رنگ ارغوانی ہوگیا اور شب ماتم صبح ہوکر روز روشن بن گئی۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.