سیماب جل گیا تو اسے گرد بولئے
سیماب جل گیا تو اسے گرد بولئے
عاشق فنا ہوا تو اسے مرد بولئے
شربت کوں خون دل کے پیو زہر کا سا گھونٹ
ایسا طبیب کاں ہے جسے درد بولئے
ہے کیا کتاب مطلع انوار رخ ترا
سورج کوں جس کا یک ورق زرد بولئے
جیوں بو ہوئے ہیں محو ہر یک رنگ گل میں ہم
اے بلبلو صدائے انا الورد بولئے
البتہ ہووے مطلع دیوان آفتاب
تجھ حسن کی صفت میں اگر فرد بولئے
بازی ہے جان ہجر ہے ہار اور وصال جیت
غم ہے بساط دل کوں مرے نرد بولئے
ہے آگ عاشقوں کا دم سرد اے سراجؔ
اور آگ کی لپٹ کوں دم سرد بولئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |