سینے پہ کتنے داغ لیے پھر رہا ہوں میں

سینے پہ کتنے داغ لیے پھر رہا ہوں میں
by نیر سلطانپوری

سینے پہ کتنے داغ لیے پھر رہا ہوں میں
زخموں کا ایک باغ لیے پھر رہا ہوں میں

ڈر ہے کہ تیرگی میں قدم ڈگمگا نہ جائے
اک شہر بے چراغ لیے پھر رہا ہوں میں

ساقی نہ پوچھ آج کے شیشہ گروں کا حال
ٹوٹا ہوا ایاغ لیے پھر رہا ہوں میں

کیا جانے کس کے نام ہے یہ نامۂ کرم
ملتا نہیں سراغ لیے پھر رہا ہوں میں

پوچھے نہ جس کو حال نہ مستقبل حسیں
ماضی کا وہ دماغ لیے پھر رہا ہوں میں

نیرؔ ہو ایسے دور میں کیا روشنی کی بات
بن تیل کا چراغ لیے پھر رہا ہوں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse