323884شاعرمیکش حیدرآبادی

تو فقط جسم کے زخموں پہ تڑپ جاتا ہے
میں ہر اک قلب میں سو زخم نہاں پاتا ہوں
تو فقط رنگ کا دیوانہ ہے بو کا شیدا
میں رگ گل میں بھی بلبل کا لہو پاتا ہوں
تو فقط دل کی تڑپ رکھتا ہے سینے میں نہاں
میں تڑپتا بھی ہوں اور تجھ کو بھی تڑپاتا ہوں
تو فقط چلتا ہے منزل تجھے معلوم نہیں
میں تجھے راہ عمل بیٹھ کے دکھلاتا ہوں
تجھ کو انسان کی باتیں بھی سمجھنا ہے محال
میں ہر اک شے میں تکلم کی ادا پاتا ہوں
مسجد و منبر و محراب کا پابند ہے تو
میں ہر اک ذرہ میں تنویر خدا پاتا ہوں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.