شاعر
تو فقط جسم کے زخموں پہ تڑپ جاتا ہے
میں ہر اک قلب میں سو زخم نہاں پاتا ہوں
تو فقط رنگ کا دیوانہ ہے بو کا شیدا
میں رگ گل میں بھی بلبل کا لہو پاتا ہوں
تو فقط دل کی تڑپ رکھتا ہے سینے میں نہاں
میں تڑپتا بھی ہوں اور تجھ کو بھی تڑپاتا ہوں
تو فقط چلتا ہے منزل تجھے معلوم نہیں
میں تجھے راہ عمل بیٹھ کے دکھلاتا ہوں
تجھ کو انسان کی باتیں بھی سمجھنا ہے محال
میں ہر اک شے میں تکلم کی ادا پاتا ہوں
مسجد و منبر و محراب کا پابند ہے تو
میں ہر اک ذرہ میں تنویر خدا پاتا ہوں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |